بھارت کی ریاست گجرات میں برسرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے بلقیس بانو اجتماعی زیادتی اور قتل کے سزا یافتہ قیدیوں کو رہا کرنے کے متنازع فیصلے پر اب عالمی سطح پر بھی ردِ عمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔
امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) نے اس فیصلے کی مذمت کی ہے اور اسے غیر منصفانہ قرار دیا ہے۔
کمیشن کے وائس چیئرمین ابراہم کوپر نے ایک بیان میں کہا کہ کمیشن 2002 میں گجرات فسادات کے دوران ایک حاملہ مسلم خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی اور کئی افراد کے قتل کے معاملے میں عمر قید کی سزا بھگتنے والے قیدیوں کی غیر منصفانہ اور قبل از وقت رہائی کی مذمت کرتا ہے۔
جب کہ یو ایس سی آئی آر ایف کے کمشنر اسٹفن شنیک نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ قیدیوں کی رہائی انصاف کا مذاق ہے اور اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کس طرح بھارت میں اقلیت مخالف تشدد کے ملزموں کو بچایا جاتا ہے۔
ان کے مطابق 2002 کے گجرات فسادات کے ذمہ داروں کو جواب دہ بنانے میں ناکامی انصاف کے منافی ہے۔ یہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد میں ملوث افراد کو سزا سے بچانے کے سلسلے کا ایک نمونہ ہے۔
سپریم کورٹ کی ہدایت پر تشکیل دی گئی ریاستی حکومت کی ایک کمیٹی نے 1992 کے قانون کے تحت ان قیدیوں کو معافی دینے کے ضابطے کا جائزہ لیا اور کہا کہ انہوں نے چوں کہ 14 سال کی جیل کاٹ لی ہے اور جیل میں ان قیدیوں کا اخلاق بھی اچھا تھا۔ اس لیے ان کو رہا کیا جاتا ہے۔
ان قیدیوں کو 15 اگست کو یعنی بھارت کے یومِ آزادی پر جیل سے رہا کیا گیا تھا۔
کمیٹی کے ایک رکن اور گودھرا سے بی جے پی کے رکن اسمبلی سی کے راول جی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے قیدیوں کے بارے میں کہا کہ وہ برہمن ہیں اور اعلیٰ کردار اور اقدار کے مالک ہیں۔
انہوں نے ان کے جرم کے ارتکاب پر شبہے کا اظہار کیا اور کہا کہ ممکن ہے کہ اس فرقہ وارانہ ماحول میں انہیں مذکورہ جرم کا ذمہ دار ٹھہرا دیا گیا ہو۔
دریں اثنا متعدد تنظیموں اور سول سوسائٹی کے ارکان نے جمعے کو احمد آباد میں قیدیوں کی رہائی کے خلاف مظاہرہ کیا اور اس فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
پولیس نے ان کے خلا ف کارروائی کرتے ہوئے کم از کم 50 افراد کو حراست میں لے لیا۔پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے مظاہرے کی اجازت نہیں لی تھی۔
مظاہرے کا اہتمام ویمنز ایکشن گروپ، آل انڈیا مہیلا سنسکرتی سنگٹھن، گجرات مہیلا منچ اور دیگر تنظیموں نے کیا تھا۔ مظاہرین نے آشرم روڈ پر ایچ کے آرٹس کالج کے پاس پہنچ کر احتجاج کیا۔ پولیس کی جانب سے حراست میں لیے جانے والوں میں اکثریت خواتین کی ہے۔
ایک روز قبل ہی مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی چھ ہزار سے زائد شخصیات نے ایک مشترکہ بیان میں سپریم کورٹ سے گجرات حکومت کے بلقیس بانو گینگ ریپ کیس کے سزا یافتہ قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ منسوخ کرنے اور انہیں دوبارہ گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
گجرات سے کانگریس کے تین ارکان اسمبلی غیاث الدین شیخ، عمران کھیڈا والا اور جاوید پیرزادہ نے صدر دروپدی مرمو کے نام ایک خط میں گجرات حکومت کے فیصلے کی مخالفت کی اور اسے واپس لیے جانے کی اپیل کی۔
انہوں نے کہا کہ قیدیوں کی رہائی سے ہر انصاف پسند شخص کو صدمہ پہنچا ہے۔
اسی دوران بلقیس بانو کے شوہر یعقوب رسول نے میڈیا ادارے ’دی کوینٹ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قیدیوں کی رہائی کے بعد ایسا لگتا ہے کہ انصاف کے لیے 18 سالہ لڑائی ضائع ہو گئی۔
ان کے مطابق بلقیس بہت مایوس ہیں۔ ان کے دل کو دکھ پہنچا ہے جب کہ وہ خوف زدہ بھی ہیں۔
بلقیس بانو کیس کے قیدیوں کو سزا سنانے والے جسٹس یو ڈی سالوی نے قیدیوں کو رہا کیے جانے کی مخالفت کی ہے اور اسے ایک غلط مثال قائم کیے جانے سے تعبیر کیا ہے۔
ان کے مطابق اب اجتماعی زیادتی کے معاملوں میں سزا پانے والے دوسرے قیدی بھی اسی طرح رعایت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
انہوں نے ایک نیوز ویب سائٹ ’بار اینڈ بینچ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کے وسیع تر مضمرات برآمد ہوں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ گجرات حکومت نے یہ فیصلہ اس دن کیا، جب وزیرِ اعظم نریندر مودی عوام سے خواتین کے خلاف نفرت چھوڑنے اور ان کے احترام کی بات کر رہے تھے۔ وزیرِ اعظم نے خواتین کو بااختیار بنانے کی بھی بات کی تھی۔
انہوں نے 1992 کی معافی کی پالیسی کے استعمال پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کو 1992 کی پالیسی کے تحت ان مجرموں کی درخواستوں پر غور کرنے کا حکم دیا تھا البتہ ہمارے ملک کی سب سے بڑی عدالت ایسا فیصلہ کرنے کی اجازت کیسے دے سکتی ہے۔
انہوں نے مجرموں کی رہائی کے بعد مٹھائی اور ہار کے ذریعے ان کے استقبال کی مذمت کی اور کہا کہ وہ نہیں سمجھ پا رہے کہ ایسے لوگوں کا خیرمقدم کیوں کیا جا رہا ہے۔ یہ بالکل نہیں ہونا چاہیے۔
مسلمانوں کی ایک تنظیم جمعیت علما ہند نے اس معاملے میں بلقیس بانو کو قانونی امداد فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔
جمعیت کی قانونی کمیٹی کے سربراہ مولانا گلزار اعظمی کے مطابق اس سلسلے میں قانونی چارہ جوئی پر غور کیا جا رہا ہے۔
گودھرا سے بی جے پی کے رکن اسمبلی اور 10 رکنی کمیٹی کے ایک ممبر راول جی کا کہنا ہے کہ کمیٹی نے اتفاق رائے سے قیدیوں کو رہا کرنے کی سفارش کی تھی۔
ان کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے مئی میں اس معاملے پر غور کرنے کی ہدایت کے بعد چار مرتبہ کمیٹی کا اجلاس ہوا اور پھر یہ سفارش کی گئی۔
کمیٹی کے سربراہ پنچ محل کے ضلع مجسٹریٹ سوجال میترا تھے جب کہ اس میں گودھرا کے پرنسپل ضلع سیشن جج، ڈسٹرکٹ سوشل ویلفیئر افسر، پنچ محل کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اور گودھرا جیل کے سپرنٹنڈنٹ اس کے ارکان میں شامل رہے۔
باقی پانچ ارکان کا تعلق بی جے پی سے تھا جن میں سے دو بی جے پی کے ارکان اسمبلی ہیں۔
کمیٹی کی ایک خاتون رکن نے اخبار ‘انڈین ایکسپریس’ سے گفتگو میں اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ یہ اکثریتی فیصلہ تھا۔ ہمیں اس خاتون (بلقیس بانو) سے ہمدردی ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ قیدیوں کے گھر بھی خواتین ہیں جو بغیر کسی جرم کے پریشانی جھیل رہی ہیں۔