ویب ڈیسک۔ ایران بھر میں کئی ہفتوں سے جاری احتجاج اور بدامنی کے بعد منگل کو ایران کی کرنسی امریکی ڈالر کے مقابلے میں اپنی کم ترین قیمت پر آگئی۔ ریال اپنی نئی سطح پر، سولہ ستمبر کو ملک کی اخلاقی پولیس کی حراست میں 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے احتجاج اورمظاہروں کے درمیان پہنچا ہے، جنہیں اسلامی جمہوریہ کے خواتین کے لیے لباس کے سخت ضابطے کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔
عالمی طاقتوں کے ساتھ تہران کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے مذاکرات میں تعطل کا بھی ایرانی ریال پر بہت زیادہ بوجھ پڑا ہے۔
تہران میں تاجروں نے منگل کوڈالر کا تبادلہ 338,000 ریال سے کیا، جو پیر کو 332,200 ریال کے مقابلے میں زیادہ تھا۔
اس جوہری معاہدے کے وقت جس نے تہران کے جوہری پروگرام پر سخت پابندیوں کے تبادلے میں بین الاقوامی تعزیرات ہٹا دی تھیں ،2015 میں ایران کی کرنسی کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں 32,000 ریال تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ریال اپنی نئی کم ترین سطح پر، سولہ ستمبر کو ملک کی اخلاقی پولیس کی حراست میں 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے احتجاج اورمظاہروں کے درمیان پہنچا ہے۔ جنہیں اسلامی جمہوریہ کے خواتین کے لیے لباس کے سخت ضابطے کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔
جن مظاہروں نے ایران کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، وہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سےاس ملک کے مذہبی حکمرانوں کو درپیش سب سے زیادہ جرات مندانہ چیلنجوں میں سے ایک بن گئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق، سیکورٹی فورسز نے اس مخالفت کو کچلنے کی کی کوشش میں کم از کم 270 افراد کو ہلاک اور تقریباً 14 ہزار کو گرفتار کیا ہے ۔
اگرچہ مظاہرین نے ایرانی حکومت کی جانب سے خواتین کے لیے حجاب کی لازمی پابندی کو ہدف بنایا ہے۔
تاہم ایرانی عوام کو سڑکوں پر لانے کی ایک اور وجہ ملک کی بد حال معیشت بھی ہے۔ بڑھتی ہوئی قیمتوں، بے روزگاری اور بدعنوانی نے بدامنی کو ہوا دی ہے۔
SEE ALSO: ایران:حکومت مخالف ’بلوائیوں‘ کو پھانسی دینے کا مطالبہایران جوہری معاہدہ، مہینوں پہلے مذاکرات کے تعطل کے بعد سے ٹوٹ پھوٹ کی طرف جارہاہے۔
امریکہ اور یورپی یونین نے احتجاج شروع ہونے کے بعد، مظاہرین کے ساتھ وحشیانہ سلوک اور یوکرین کی جنگ میں استعمال کے لیے تہران کی جانب سے روس کو سینکڑوں ڈرون بھیجنے کے فیصلے کے نتیجے میں ایران پر اضافی پابندیاں عائد کر دیں۔
وائٹ ہاؤس کو اس معاہدے کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایران کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی رابرٹ میلے نے پیر کے روز کہا کہ انتظامیہ معاہدے کو مردہ قرار دینے سے انکار پر’معذرت خواہ نہیں ہے۔’
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 2018 میں امریکہ کے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے اور ایران کے تیل اور بینکاری کے اہم شعبوں پرسخت پابندیوں کو بحال کرنے کے بعد سے ، ایران کی معیشت میں نمایاں طور تنزلی آئی ہے۔