ویب ڈیسک۔ ایران میں 300 سے زیادہ صحافیوں نے جیل میں بند اپنے ان دو ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے، جنہیں مہسا امینی کے حق میں کئے جانے والے مظاہروں کی کوریج کی وجہ سے جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ایران میں مذہبی حکمرانوں کو پچھلی کئی دہائیوں میں سب سے بڑے حکومت مخالف مظاہروں کا سامنا ہے۔
صحافیوں کی طرف سے یہ مطالبہ ایران کے اخبار ’ اعتماد‘ دیگر اخبارات میں شائع ہو ا ہے۔
نیلوفر حمیدی نے تہران کے ایک اسپتال میں امینی کے والدین کی ایک تصویر بنائی تھی جس مٰیں وہ ایک ہسپتال میں کومے سے گزرنے والی اپنی بیٹی کے ساتھ کھڑے ایک دوسرے سے بغلگیر ہیں۔
حمیدی نے ٹوئٹر پر جو تصویر پوسٹ کی، وہ دنیا کے لیے پہلا اشارہ تھا کہ امینی کے ساتھ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
مظاہرین میں شامل ایک صحافی الٰہی محمدی نے امینی کے کرد آبائی شہر ساقیز میں جنازے کی ا کوریج کی تھی۔ یہ وہی شہر ہے جہاں سے احتجاج شروع ہوا تھا، جمعے کو ایران کی وزارت انٹیلی جنس اور پاسداران انقلاب کی انٹیلی جنس تنظیم کی جانب سے جاری کیے گئے مشترکہ بیان میں اور محمدی اور نیلوفر حمیدی پر غیر ملکی ایجنسی سی آئی اے کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔ اور یہ وہی سرکاری موقف ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایران کے حقیقی دشمن امریکہ، اسرائیل اور مغربی قوتیں ایران میں ہونے والے مظاہروں کے پیچھے ہیں تاکہ ملک میں عدم استحکام پیدا کیا جا سکے۔
ایران میں ایک بائیس سالہ کر د خاتون مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں موت کے خلاف پچھلے کئی ہفتوں سے ملک بھر میں مظاہرے جاری ہیں ۔مہسا امینی کو اخلاق کی پابندی کرانے والی پولیس نے بقول انکے اس لئے حراست میں لیا تھا کہ انہوں نے حکومتی فرمان کے خلاف نا مناسب لباس زیب تن کیا ہوا تھا ۔
حقوق گروپوں کے مطابق، گزشتہ چھ ہفتوں میں کم از کم 40 صحافیوں کو حراست میں لیا گیا ہے، اور یہ تعداد بڑھ رہی ہے۔
مظاہروں میں کمی کے امکانات نظر نہیں آ رہے ہیں اس کے باوجود کہ ایران کی پاسداران انقلاب کے خوفزدہ سربراہ نےمظاہرین خبردار کیا تھا کہ ہفتے کا دن ان کے احتجاج کا آخری دن ہو گا۔
تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہےکہ ایران کے راہنما اس دباو کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن مستقبل میں سیاسی تبدیلی کا جو راستہ متشکل ہو چکا ہے، اسے ختم نہیں کیا جا سکے گا۔
ایران میں ہونے والے مظاہروں میں طلباء اور خواتین نے ایک نمایاں کردار ادا کیا ہے، جنہوں نے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی موت اور اسلامی جمہوریہ کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے سکارف جلائے ہیں۔ 1979 کے انقلاب کے بعد سے یہ سب سے پرزور احتجاج ہے۔
پاسداران انقلاب اور رضاکار ملیشیا باسیج ماضی میں مخالفین کو کچلتے آئے ہیں - 2009 میں ہونے والے احتجاج چھ ماہ تک جاری رہے تھے ۔ کسی عہدیدار نے کبھی مذہبی اسٹیبلشمنٹ پر کھلے بندوں تنقید نہیں کی ہے۔
رضاکار فورس باسیجیز کو ایران کی یونیورسٹیوں اور سڑکوں پر تضحیک کا سامنا ہے لیکن ابھی تک اس فورس نے تحمل سے کام لیا ہے۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی IRNA نے صوبہ خراسان جنوبی میں پاسداران انقلاب کے بریگیڈیئر جنرل محمدرضا مہدوی کے حوالے سے بتایا۔کہ اگر صورتحال یہی رہی تو حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔
سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں جن کی خبر رساں ادارہ ئٹرز ، اپنے ذرائع سے تصدیق نہیں کر سکا ہے، ، ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں طلباء کو بلوہ پولیس اور باسیج فورسز کے ساتھ متصادم دکھایا گیا، اور وہ نعرے لگارہےہیں کہ ’ بے توقیر باسیجیز، دفع ہو جاو‘۔
ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے بظاہر ایک مفاہمت آمیز بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ پرامن اور پرتشدد مظاہرین کے درمیان فرق کو نوٹ کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا،کہ ہم احتجاج کو نہ صرف درست اور پیش رفت کا سبب سمجھتے ہیں، بلکہ ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ یہ سماجی تحریکیں پالیسیوں اور فیصلوں کو بدل سکتی ہیں بشرطیکہ ان کو فسادی لوگوں، مجرموں اور علیحدگی پسندوں سےسے الگ رکھا گیا ہو۔