اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی پلاسٹک کی آلودگی کے خاتمے کے کسی سمجھوتے تک پہنچنے کے لئے پیرس میں ایک اہم بات چیت کر رہی ہے ۔ بات چیت کے نتائج کیا ہونے چاہئیں، اس بارے میں ابھی کوئی لائحہ عمل طے نہیں ہے ۔ لیکن پلاسٹک بنانے والے اور امریکہ ، سعودی عرب اور چین سمیت گیس برآمد کرنے والے ملک ، ایسا معاہدہ چاہتے ہیں جس میں پلاسٹک کا کچرا ٹھکانے لگانے کا دائرہ کار محدود ہو اور ری سائیکلنگ پر زیادہ زور دیا جائے۔
واضح رہے کہ زیادہ تر پلاسٹک معدنی ایندھن سے تیار ہوتا ہے ۔پلاسٹک کی آلودگی کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے تشکیل دی گئی اس بین الاحکومتی مذاکراتی کمیٹی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ سمندر میں موجود پلاسٹک کی آلودگی کے خاتمے کے بارے میں ایسا معاہدہ تیار کرے جس کی قانونی طور پر پابندی لازمی ہو ۔ پلاسٹک کی آلودگی کے خاتمے کے لئے طے شدہ پانچ اجلاسوں کو 2024 تک مکمل ہونا ہے اور پیرس میں شروع ہونے والا یہ اجلاس اس سلسلے میں ہونے والا دوسرا اجلاس ہے۔
چھ ماہ قبل ایروگوائے میں منعقد ہونے والے پہلے اجلاس میں کچھ ملکوں نے عالمی اتفاق رائے پر ، کچھ نے قومی پیمانے کے حل اور کچھ نے دونوں پر زور دیا تھا۔
اس معاہدے پر گفتگو کے لئےدی گئی مدت انتہائی قلیل ہے، اس لئے ماہرین کہتے ہیں کہ اس دوسرے سیشن میں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ معاہدے کے متن کے مقاصد اور دائرہ کار پر فیصلے کئے جائیں ، کہ اس میں کس قسم کے پلاسٹک پر توجہ مرکوز کی جائے گی ۔ تاہم یہ کہنا آسان مگر کرنا مشکل ہے ۔
یورپ میں قائم اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو کی میزبانی میں ہونے والے اس اجلاس میں لگ بھگ 200 ملکوں کے 2 ہزار سے زیادہ مندوبین شریک ہیں جن میں حکومتوں کے نمائندے اور مبصرین شامل ہیں ۔
اقوام متحدہ کے ماحولیات سے متعلق پروگرام نے اپریل میں کہا تھا کہ دنیا بھر میں ہر سال 430 ملین، ٹن پلاسٹک کی مصنوعات تیار کی جاتی ہیں ، جن میں سے دو تہائی بہت تھوڑے عرصے قابل استعمال ہونے کے بعد جلد ہی کچرا بن کر سمندر کو بھر دیتی ہیں اور اکثر اوقات انسانی خوراک میں بھی شامل ہو جاتی ہیں۔
اقتصادی تعاون اور ترقی کے ادارے کے مطابق عالمی طور پر پیدا ہونے والا کچرا 2060 تک تقریباً تین گنا ہو جائے گا جس کا لگ بھگ نصف کچرا گاہوں میں دفن ہو جائے گا اور پانچواں حصہ ری سائیکلنگ کے لئے استعمال کیا جائے گا۔
ناروے اور روانڈا کی زیر قیادت، ملکوں کے اس اتحاد کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ انسانی صحت اور ماحول پر مرکوز ہو سکتا ہے جس میں پلاسٹک کی پیداوار کو محدود کرنے اور پلاسٹک میں استعمال ہونے والے کچھ کیمیکلز پرپابندی پر زور دیا جائے گا۔
یہ اتحاد 2040 تک پلاسٹک کی آلودگی کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی سطح کے ایک قانونی طور پر پابند معاہدے کی تشکیل کا عزم رکھتا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ انسانی صحت اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے اہم ہے جب کہ اس سےحیاتیاتی تنوع اور آب وہوا کی تبدیلی کے مقابلے میں مدد ملے گی ۔
متبادل کے طور پر اس معاہدے میں پلاسٹک کے کچرے سے نمٹنے اور اس کی ری سائیکلنگ کو بڑھانے کے لیے اس کے دائرہ کار کو مزید محدود کیا جا سکتا ہے ، جیسا پلاسٹک پیدا کرنے والے اور تیل اور گیس بر آمد کرنے والے کچھ ملک چاہتے ہیں ۔ س منصوبے کی حمایت کرنے والے ملکوں میں امریکہ، سعودی عرب اور چین شامل ہیں۔
SEE ALSO: سمندروں میں پلاسٹک کی آلودگی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیانٹرنیشنل کونسل آف کیمیکل ایسو سی ایشنز ، ورلڈ پلاسٹک کونسل ، امریکن کیمسٹری کونسل اور پلاسٹک بنانے، اسے استعمال کرنے اور اس کی ری سائیکلنگ کرنے والی دوسری کمپنیوں کا کہنا ہے کہ وہ ایسا معاہدہ چاہتی ہیں جس سے پلاسٹک کی آلودگی کا خاتمہ ہو جب کہ پلاسٹک کے سماجی فائدے بھی بر قرار رہیں ۔
SEE ALSO: بائیڈن نے ماحولیاتی انصاف کی ترجیح کے حکم نامے پر دستخط کر دیےامریکن کمیسٹری کونسل کے نائب صدر، جوشوا باگا کا کہتے ہیں کہ ملک ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتے ہیں اور اس سلسلے میں کوئی ایک طریقہ کار سب کے لیے موثر، مساوی یا قابل عمل نہیں ہو سکتا اس لئے معاہدے میں مختلف ملکوں سے ان کے اپنے اپنے قومی ایکشن پلان کا تقاضہ کیا جانا چاہئے جس سے وہ ملک اپنے مخصوص حالات کے مطابق پلاسٹک کی آلودگی کو موثر طور پر ختم کر سکیں ۔
آلودگی کے خاتمے سے متعلق بین الاقوامی نیٹ ورک یا آئی پی ای این ایک ایسے معاہدے کا خواہاں ہے جس میں پلاسٹک بنانے میں استعمال ہونے والے ایسے کیمیکلز پر پابندی عائد کی جائے جو انسانی صحت اور ماحول کے لئے نقصان دہ ہوں ۔
SEE ALSO: کاشتکاری میں استعمال ہونے والا پلاسٹک زرعی مٹی کو آلودہ کر رہا ہے، رپورٹنیٹ ورک کے شریک چئیر پرسن ، ڈاکٹر ٹداسی امیرا نے کہا ہے کہ اس معاہدے میں پلاسٹک کے کچرے پر توجہ مرکوز کرنا ایک ناکامی ہوگا کیوں کہ بحران کے حل کےلیے آپ کومعدنی ایندھن اور زہریلے کیمیاوی مادوں کے اخراج سمیت پلاسٹک کی پیداوار کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا ۔
ادارے کے انٹر نیشنل کو آرڈی نیٹر ، بیورن بیلر نے کہا ہے کہ معاہدے کے متن پر ایک ابتدائی مسودہ تحریر کرنے کے لئے ملکوں کو اس ہفتے کے آخر تک کوئی منصوبہ تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تیسرے اجلاس میں اس پر گفت و شنید ہو سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر گفت و شنید کے لیے کوئی متن موجود نہیں ہے تو آپ صر ف آئیڈیاز پر تبادلہ خیالات ہی جاری رہے گا۔ اور ایسی صورت میں معاہدے کی تکمیل کے لئے دی گئی مہلت کے پیش نظر ہمیں ایک ابتدائی ناکامی درپیش ہو گی ۔
اس رپورٹ کا مواد ایسو سی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے ۔