اقوام متحدہ کے بچوں سے متعلق ادارے، یونیسیف نے جمعرات کو ان خبروں پر تشویش کا اظہار کیا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ طالبان ان بین الاقوامی تنظیموں پر پابندی عائد کر سکتے ہیں جو اسکولوں میں نہ جانے والے بچوں کو تعلیم کی فراہمی میں مدد کر رہے ہیں۔
ادارے کا کہنا ہے کہ وہ اس حکم نامے کے بارے میں مزید معلومات اکٹھی کر رہا ہے جس میں کہا گیا کہ طالبان عہدےدار تعلیمی شعبے میں غیر ملکی این جی اوز کی براہ راست شمولیت نہیں چاہتے۔
ادارے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یونیسیف کو ان رپورٹس پر سخت تشویش ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ اگر تعلیمی شعبے میں فعال بین الاقوامی این جی اوز کو مزید کام کرنےکی اجازت نہ دی گئی تو تین لاکھ لڑکیوں سمیت پانچ لاکھ بچے ایک ما ہ کے اندر اندر معیاری تعلیم سے محروم ہو سکتے ہیں ۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ادارہ ان رپورٹس کو بہتر طور پر سمجھنے کی کوشش کررہا ہےجن پر طالبان راہنماوں کی جانب سے ابھی تک عوامی طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیاہے۔
یونیسیف 15 غیر سرکاری افغان تنظیموں اور 12 بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مل کر ملک بھر کے انتہائی دور افتادہ اور غربت زدہ علاقوں میں کمیونٹی کی مدد سے 2100 اسکولوں کو چلا رہا ہے ۔
SEE ALSO: افغانستان میں طالبات کی تعلیم پر پابندی، مذہبی علما کی طالبان کے اقدامات پر تنقیدان علاقوں میں جہاں کوئی اسکول نہیں ہے یا جہاں بچوں کو افغان اساتذہ قومی نصاب پڑھاتے ہیں، وہاں روایتی طور پر کمیونٹی کی عمارتوں یا گھروں میں کلاسز کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔
رپورٹ کیے گئے حکمنامے کے مطابق یہ کلاسیں قومی امدادی تنظیموں کےسپرد کر دی جائیں گی ۔ طالبان کی وزارت تعلیم کی اتوار کے روز کی ایک ٹویٹ کے مطابق یہ اقدام طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ کی قندھار میں صوبائی تعلیمی حکام سے ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے۔
طالبان کے راہنما بار بار یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ وہ فنڈز کے فقدان پر قابو پانے اور نصاب تعلیم کو اسلامی خطوط کے مطابق ڈھالنے سمیت ، حالات کے ایک مخصوص نہج پر آنے کے بعد اسکولوں کو دوبارہ کھول دیں گے۔
طالبان حکام نے 1996 سے 2001 تک اپنے پہلے دور اقتدار کے دوران بھی ایسی ہی یقین دہانیاں کرائی تھیں لیکن ان پانچ برسوں میں لڑکیوں کے اسکول دوبارہ نہیں کھلے ۔
SEE ALSO: افغان خواتین پر طالبان کی پابندیاں انسانیت کے خلاف جرم ہیں: عالمی تنظیمیںافغانستان میں تقریباً دو سال قبل جب سے طالبان نے اقتدار پر قبضہ کیا ہے ، خواتین پر سیکنڈری اسکول اور یونیورسٹیوں میں تعلیم پرپابندی عائد ہے ۔
لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف سابقہ احکامات کے بارے میں خیال کیاجاتا ہے کہ انہیں اخوندزادہ اور ان کے انتہائی قدامت پسند مشیروں نے تیار کیا تھا جو خواتین کی جدید تعلیم کے سخت خلاف ہیں۔
اس صورتحال نے تحریک کےاندر سخت تنقید ، اور بین الاقوامی طور پر برہمی کو جنم دیا ہے ۔
SEE ALSO: اقوام متحدہ افغان خواتین کو عالمی ادارے کے ساتھ کام سے روکنے کے فیصلے پر شدید برہممارچ میں طالبان حکام نے تعلیم کے حامی ایک افغان سر گرم کارکن مطیع اللہ ویسا کو گرفتار کیا تھا اور وہ بدستور حراست میں ہیں ۔
مطیع اللہ ایک تنظیم ،”پین پاتھ” کے بانی ہیں جو دیہی علاقوں میں تعلیم بالغاں کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے اور تشددکے باعث بند ہوجانےوالے لڑکیوں اور لڑکوں کے اسکولوں کو دوبارہ کھولنے میں مدد کر رہی ہے ۔
حکام نے فروری میں صحافت کے ایک لیکچرار اسماعیل مشعل کو بھی اس کے کئی ہفتوں بعد گرفتار کر لیا تھا جب میڈیا نے انہیں کابل کے ارد گرد ٹھیلے پر کتابیں رکھے اور انہیں راہ گیروں میں مفت تقسیم کرتےہوئے دکھایا تھا۔
قومی اور بین الاقوامی امدادی گروپس پرحالیہ مہینوں میں اس حکمنامے کے بعد بھی دباؤ میں سخت اضافہ ہوا ہے جس کے تحت افغان خواتین عملے کو فیلڈ ورک سے روک دیا گیا تھا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انٹرنیشنل کمیشن فار جیورسٹ( آئی سی جے) نے حال ہی میں اپنی ایک نئی رپورٹ میں کہا کہ طالبان کی جانب سے افغان خواتین کے حقوق کے خلاف کریک ڈاؤن اور خواتین کی"قید، جبری گمشدگی، تشدد اور دیگر ناروا سلوک" بین الاقوامی فوجداری قوانین کے تحت صنفی ظلم و ستم ثابت ہو سکتا ہے۔
SEE ALSO: 'ہم زندہ ہیں مگر جی نہیں رہے:' افغان خواتینایمنسٹی کی سیکرٹری جنرل، اگنیس کالمارڈ نے رپورٹ میں کہا ہے کہ، افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ "خواتین کے خلاف جنگ" ہے، جو "بین الاقوامی جرائم" کے مترادف ہے اور یہ منظم، وسیع اور ایک منصوبےکے تحت کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ "جنسی جبر اور ظلم و ستم کے اس نظام کو ختم کرے۔
تاہم ایک اچھی خبر یہ ہے کہ اس ہفتے کے اوائل میں پناہ گزینوں سے متعلق ناروے کی ایک تنظیم، نارویجئن ریفیوجی کونسل نے کہا کہ طالبان عہدے داروں کے ساتھ ایک عارضی معاہدے پر گفت و شنید کے بعد ا س کے عملے کی افغان خواتین نے کچھ صوبوں میں کام دوبارہ شروع کر دیا ہے ۔
اس رپورٹ کا بیشترمواد اے پی سے لیا گیا ہے۔