پاکستانی میڈیا میں شائع ہونے والی ان خبروں نے تارکین وطن میں بے چینی سی پیدا کردی ہے کہ حکومت نے بیرون ملک مقیم تقریباً 500 پاکستانیوں کی فہرست تیارکی ہے جن کے خلاف وہ نو مئی کو ہونے والے پر تشدد حملوں کے سلسلے میں قانونی چارہ جوئی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
اس ضمن میں مختلف آرا سامنے آرہی ہیں۔ ایک طرف سابق وزیر اعظم عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف پارٹی کے رہنماہیں جو سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے فیصلے محض تارکین وطن کو ہراساں کرنے کا ایک بہانہ ہے تاکہ وہ پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنا بند کردیں۔
دوسری طرف موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کی پاکستان مسلم لیگ (ن)کے حامی ہیں جو کہتے ہیں کہ کسی بھی شہری کو پاکستان میں بحران پیدا کرنے یا ریاستی اداروں پر حملہ کرنے کا حق نہیں اور عمران خان کو ان حملوں کی شدید مذمت کرنی چاہیے۔
خیال رہے کہ بعض پاکستانی اخبارات اور چینلز نے اس ہفتے رپورٹ کیا تھا کہ حکومت نے تقریباً پانچ سو تارکین وطن کی فہرست تیار کی ہے جن کے خلاف نو مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے مقدمات دائرکیے جائیں گے۔ اس سے قبل تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے عندیہ دیا تھا کہ ملکی صورت حال پر منفی پروپیگنڈے پھیلانے پروہ انٹر پول کے ذریعہ اور پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کے تحت تارکین وطن کے خلاف کارروائی کرے گا۔
دریں اثنا، ایک سرکاری ذریعے نے ان خبر وں کی تردید کی ہے کہ حکومت تارکین وطن کے خلاف اقدامات کررہی ہے۔
سرکاری ذرائع نے وائس آف امریکہ کو رابطہ کرنے پر بتایا ، "09 مئی 2023 کے حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں 500 کے قریب بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے خلاف مقدمات کے حوالے سے رپورٹس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔"
ذرائع نے کہا کہ حراست میں لیے گئےتارکین وطن کو جن کی تعداد بہت کم ہے، قونصلر رسائی دی جا رہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان تحریک انصاف پارٹی کے شمالی امریکہ کے ڈپٹی سیکرٹری جانی بشیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان کی حکومت ملک میں بسنے والے لوگوں کی طرح تارکین وطن کے حقوق بھی سلب کر کے انہیں خاموش کرانا چاہتی ہے لیکن وہ ہر گز خاموش نہیں ہوں گے۔
"پاکستانی امریکی محب وطن لوگ ہیں اور نہ صرف انہوں نے پاکستان کے خلاف کسی بھی پروپیگنڈہ کا مقابلہ کیا ہے بلکہ وہ پاکستان کے لیے قیمتی زر مبادلہ اور سرمایہ کاری کا اہم ذریعہ ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت کے آخری سال میں 29 ارب ڈالر کا زر مبادلہ فراہم کرنے والے تارکین وطن ملکی مسائل کے حل کا اہم حصہ ہیں۔ ان کو ڈرانے دھمکانے کی بجائے ان سے بات چیت کرنی چاہیے۔
جانی بشیر کے الفاظ میں پی ٹی آئی سے وابستہ لوگ پاکستان کی فوج کی حمایت کرتے ہیں، لیکن ان کے بقول، "ہم صرف ان افسروں کے خلاف ہیں جو غیر جمہوری اقدامات کے ذریعہ عوام کی آواز کچلنا چاہتےہیں۔"
دریں اثنا، پارٹی کے سابق سینیئر نائب صدر رانا سعادت کے مطابق پی ٹی آئی پاکستان کی موجودہ حکومت کی ماورائے قانون کاروایئوں کے خلاف آواز اٹھاتی رہے گی اوراس مقصد کے لیے گیارہ جون کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی عمارت کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کر رہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان مسلم لیگ(ن)امریکہ کے صدر روہیل ڈار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عوام کے احتجاج کے حق اور کسی ریاستی ادارے پر حملہ کرنے میں ایک باریک سی لائن ہے لیکن پی ٹی آئی نے اپنے رہنما کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اس ریڈ لائن کو پار کرلیا۔
"میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کو اس حملے کی کھلم کھلا مذمت کرنی چاہیے تھی۔ جہاں تک ڈوئل نیشنیلٹی یا دوہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کا تعلق ہے تو ان کی ایسے معاملات میں دوہری ذمہ داری بھی ہے۔ "
لیکن، روہیل ڈار کسی بھی کارکن یا مظاہرین کے خلاف بلا جواز کارروائی کی مخالفت کرتے ہیں۔
ان کے مطابق وہ نہیں سمجھتے کہ حکومت تارکین وطن کی اہمیت کومدنظر رکھتے ہوئے ان کے خلاف مقدمے چلانے جیسا کوئی اقدام اٹھائے گی۔
"ہر شہری کے حقوق ہیں اور انہیں قانون کے مطابق ڈیو پروسیس آف لا میسر ہونا چاہیے ۔ ریاست اسی وقت کسی کے خلاف اقدام اٹھائے جب اس کے پاس واضح ثبوت موجود ہوں۔"
روہیل ڈار یہ بھی کہتے ہیں کہ ریاست کو ان مظاہرین کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے کے بعد انہیں بہتری کی طرف آنے کا موقع دینا چاہیے کیونکہ "پاکستان کو اس وقت قومی یکجہتی کی اشد ضرورت ہے۔"
SEE ALSO: 'وقت آ گیا ہے ریاستی اداروں کے خلاف بغاوت کے منصوبہ سازوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے'
ادھر برسرا قتدار پی ڈی ایم حکومت کی حلیف جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے امریکہ کے صدر خالد اعوان کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت نے جمہوریت کی بقا اور انسانی حقوق کی بڑی قیمت ادا کی ہےاور وہ نہیں چاہتے کہ تارکین وطن کو ، جو کہ پاکستانی معیشت کے لیے لائف لائن کی حیثیت رکھتے ہیں، کسی قسم کی کارروائی کا نشانہ بنایا جائے۔
" ہم نے جمہوریت کے لیے بڑی قربانیاں دیں ۔ ہم نے احتجاج کیا کیونکہ احتجاج کرنا ہمارا حق ہے مگر کسی بھی پارٹی کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ ریاست پر حملہ کرے۔
"لیکن ساتھ ہی میں کہوں گا کہ تارکین وطن بہت محب وطن ہیں اور وہ پاکستان کی ہر کڑے وقت میں مدد کرتے ہیں لہذا ان پر الزامات نہ لگائے جائیں ۔ بلکہ انہیں اعتماد میں لیا جائے اور ان کو ملک کی بہتری کے لیےکام کرنے کا مواقع دیا جائے۔"
انہوں نے نو مئی کے حملو ں میں مبینہ طور پر ملوث لوگوں کےبار ےمیں کہا کہ اگر واقعی ان کے خلاف ٹھوس ثبوت ہے تو ان پر ملٹری کورٹس کے بجائے سویلیئن کورٹس میں قانونی چارہ جوئی کی جائے۔
وائس آف امریکہ نے بین الااقوامی سطح پر کسی ملزم کو اس کے آبائی ملک کی درخواست پر اس کے اختیار کردہ ملک سے مقدمہ چلانے کے لیے منتقل کرنے کے عمل کو سمجھنے کےلیے سول رائیٹس اور انسانی حقوق کے وکیل فیصل گل سے رابطہ کیا۔
SEE ALSO: پارٹی چھوڑنے والوں کی بڑھتی تعداد؛ عمران خان کے پاس اب کیا آپشنز ہیں؟اٹارنی فیصل گل نے بتایا کہ آبائی ملک میں قانون واضح اور جائز طریقے سے ااستعمال ہونا چاہی ، یہ واضح ہونا چاہیے کہ وہ کسی شخص یر کیوں لاگو کیا جارہا ہے۔ اس میں ہر گز سیاسی پہلونہیں ہونا چاہیے۔
"پاکستان کے موجودہ تناظر کے حوالے سے انہوں نےکہا کہ اس وقت کے ملکی حالات بتاتے ہیں کہ وہاں قانون کا استعمال جائز اور غیر سیاسی نہیں ہے۔"
انہوں نے نوٹ کیا کہ "امریکہ میں تمام لوگوں کو آئین اور قانون کے مطابق آزادی رائے اور احتجاج کے حقوق حاصل ہیں۔ اور ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی ملک امریکہ سے کہے کہ فلاں شخص کو اس کے حوالے کردیا جائے تو ایسا ہو جائے۔
"امریکہ میں قانون اور آئین کی روشنی میں حوالگی کی ایسی درخواست کو پرکھا جاتا ہے۔ امریکی حکومت کے لیے بہت ہی مشکل ہے کہ وہ کسی شہری کو دوسرے ملک کے حوالے کردے۔"
دوسرا یہ کہ فیصل گل کے مطابق ہر امریکی شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایکسٹراڈیشن یا حوالگی کی درخواست کو عدالت میں چیلنج کر سکتا ہے۔