پاکستان میں جاری سیاسی بحران اور نو مئی کے واقعات کے بعد پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر امریکہ کے کئی قانون ساز امریکی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان میں انسانی حقوق کی پاسداری یقینی بنوائے۔ ایسے میں یہ سوال بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ آخر امریکہ پاکستان کی سیاسی صورتِ حال پر محتاط ردِعمل دینے پر اکتفا کیوں کر رہا ہے؟
امریکی قانون سازوں کی طرف سے اس تشویش کا اظہار ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب نو مئی کو سابق وزیراعظم عمران خان کی مختصر وقت کے لیے گرفتاری کے بعد ہونے والے پرتشدد مظاہروں اور عسکری تنصیبات پر حملوں کے بعد ملک بھر میں کریک ڈاؤن جاری ہے۔
امریکہ میں مقیم پی ٹی آئی کے حمایتی بھی انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیاں رکوانے کے لیے امریکہ کے قانون سازوں سے رُجوع کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ امریکی کانگریس کے 60 سے زائد اراکین نے امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کو لکھے گئے ایک خط میں زور دیا تھا کہ وہ حکومت پاکستان کو باور کرائیں کہ وہ ملک میں انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنائے۔
امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ باب مینڈیز بھی ایسے ہی تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں لیکن پاکستان کا دفتر خارجہ ان تحفظات کو مسترد کر چکا ہے۔
سابق وزیر اعطم عمران خان نو مئی کے بعد اپنی پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف ہونے والی انتظامیہ کی کارروائیوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کو بین الاقوامی سطح پر بھی اٹھا ر ہے ہیں۔
لیکن شہباز شریف ایک ٹویٹ میں یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان انسانی حقوق سے متعلق اپنی آئینی ذمے داریوں کا مکمل احترم کرتا ہے اور نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی قانون کے مطابق کی جائے گی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کے بعض حلقوں کی طرف سے سامنے آنے والے بیانات جن میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے وہ جمہوری اقدار کی حمایت کی عکاسی کرتے ہیں اور انہیں اس پس منظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
امریکہ میں تحریک انصاف کے حامی پاکستانی نژاد امریکی شہریوں کی خواہش ہے کہ امریکی انتظامیہ پاکستان میں جاری مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور تحریک انصاف کے کار کنوں اور رہنماؤں کے خلاف جاری حکومت کی کارروائیوں کو روکے۔
امریکی ردِعمل محتاط کیوں؟
سینئر تجزیہ کار ظفر جسپال کہتے ہیں کہ امریکی قانون سازوں کی رائے اہمیت رکھتی ہے لیکن اس وقت امریکی انتظامیہ پاکستان کے بارے میں کھل کر کوئی بیان دینے کے معاملے میں بظاہر محتاط ہے کیوں کہ ماضی کی نسبت امریکہ کا پاکستان پر اثرو رسوخ کم ہو گیا ہے۔
واضح رہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے محتاط بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ امریکہ کی طرف سے کہاجاتا رہا ہے کہ تمام معاملات کو آئین اور قانون کے مطابق دیکھا جائے اور یہ کہ امریکہ پاکستان میں کسی ایک فرد یا کسی ایک پارٹی کی حمایت نہیں کرتا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع اور ایک جوہری ملک ہونے کے ناطے نہ صرف خطے بلکہ مغربی ممالک بشمول امریکہ اور چین کے لیے بھی اہم ہے۔
ظفر جسپال کہتے ہیں کہ اگر پاکستان میں اکتوبر میں ہونے والے عام انتخابات وقت پر ہو تے ہیں تو شاید پاکستان میں جاری سیاسی بحران تھم جائے لیکن اگر یہ انتخابات التوا کا شکار ہوتے ہیں تو پھر امریکی حکومت کا ردِعمل مختلف ہو سکتا ہے۔
جی ایس پی پلس درجے کو درپیش خطرات
پاکستان میں یہ صورتِ حال ایسے وقت میں رونما ہو رہی جب پاکستان یورپی یونین سے جی ایس پی پلس میں توسیع چاہتا ہے۔ یورپی یونین نے اس معاہدے کی توسیع کو انسانی حقوق اور جمہوری روایات کی پاسداری کے تابع کر رکھا ہے۔
ظفر جسپال کہتے ہیں کہ اگر پاکستان میں غیر یقینی صورتِ حال اس طرح جاری رہی تو شاید پاکستان کے لیے جی ایس پی پلس کے اسٹیٹس میں توسیع حاصل کرنا ایک چیلنج بن جائے۔
خیال رہے کہ جی ایس پی پلس اسٹیٹس کی وجہ سے پاکستان کو اپنی مصنوعات یورپی منڈیوں تک پہنچانے کے لیے ٹیکس کی مد میں رعایت ملتی ہے۔
'امریکہ دونوں ملکوں کے تعلقات مزید خراب نہیں کرنا چاہتا'
بین الاقوامی امور کے ماہر اعجاز خان کہتے ہیں کہ بعض لوگوں کے لیے یہ حیرت کی بات ہے کہ عمران خان نے گزشتہ سال اپنی حکومت گرانے میں امریکہ پر ساز با ز کا الزام عائد کیا تھا لیکن وہاں اب تحریک انصاف کے حامی عمران خان کے لیے لابنگ کر رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اعجاز خان کا کہنا تھا کہ امریکہ اس لیے محتاط ردِعمل اپنائے ہوئے ہے تاکہ دونوں ملکوں کے تعلقات پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر انتخابات اکتوبر سے آگے جاتے ہیں تو ملک میں ایک آئینی بحران پیدا ہو جائے گا تو پھر پاکستان کے اندر بھی صورتِ حال تبدیل ہو سکتی ہے۔ لہذٰا بائیڈن انتظامیہ بھی شاید خاموش نہ رہے اور بین الااقوامی سطح پر بھی پاکستان کے لیے صورتِ حال تبدیلی ہو سکتی ہے۔
لیکن تجز یہ کار زاہد حسین کہتے ہیں کہ امریکہ کو پاکستان کی صورتِ حال پر تشویش تو ضرور ہو گی لیکن پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر شاید ہی کوئی بڑا اثر پڑے گا۔
اُن کے بقول پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اس وقت نہایت نچلی سطح پر ہیں اور دونوں ممالک نہیں چاہتے کہ یہ مزید خراب ہوں۔
خیال رہے کہ برطانیہ اور امریکہ میں پی ٹی آئی کے حامی ڈاکٹرز اور کاروباری افراد کی بڑی تعداد آباد ہے۔ یہ افراد امریکی کانگریس کے اراکین کے ساتھ بھی اچھے تعلقات رکھتے ہیں۔
تحریکِ انصاف پر پابندی کے عندیے پر بات کرتے ہوئے زاہد حسین کا کہنا تھا کہ یہ وہ نکتہ ہو گا جس پر مغربی ممالک کا ردِعمل سامنے آ سکتا ہے۔
لیکن زاہد حسین کہتے ہیں جہاں تک امریکہ کی بات ہے شاید ان کی طرف سے نہایت محتاط ردِعمل آئے کیوں کہ اگر پاکستان پر بہت دباؤ بڑھایا جاتا ہے تو پھر اندیشہ ہے کہ اس کا مکمل جھکاؤ کہیں چین کی طرف نہ ہو جائے۔
اُن کے بقول یہ صورتِ حال امریکہ کے لیے قابلِ قبول نہیں ہو گی کیوں کہ خطے میں چین اور امریکہ کی مسابقت بڑھ رہی ہے۔
'پاکستان کا سیاسی استحکام دنیا کے لیے اہم ہے'
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا سیاسی اور معاشی استحکام خطے کے لیے اہم ہے اور چین کے لیےانسانی حقوق اور جمہوری اقدار کی نسبت پاکستان کا سیاسی استحکام اہم ہے۔
ماہرین کے مطابق چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کے منصوبوں کے مقاصد اسی صورت میں بیجنگ کو حاصل ہوں گی جب پاکستان میں سیاسی استحکام ہوگا اس لیے چین کی خواہش ہو گی کہ پاکستان میں سیاسی استحکام جلد بحال ہو۔
تجزیہ کار اعجاز خان کہتے ہیں کہ چین کے لیے جمہوری اقدار کوئی پریشانی کی بات نہیں ہو گی چین کے لیے یہ بات اہم نہیں ہے کہ الیکشن ہوتے ہیں یا نہیں لیکن چین کے لیے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پریشانی کا باعث ضرور ہوگا۔