پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ ایک اہم بیل آؤٹ ڈیل کے لیے اسٹاف کی سطح کا معاہدہ 'اگلے 24 گھنٹوں میں متوقع ہے' ، جبکہ امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ واشنگٹن ان مذاکرات میں فریق نہیں ہےتاہم وہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے ساتھ اس کے اصلاحاتی پروگرام پر تعمیری انداز میں بات چیت کی ترغیب دیتا ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے کرنے کی تازہ ترین امید کا اظہار جمعرات کو خبررساں ادارے رائٹرز کو دیے گئے انٹرویو میں کیا ، جب انہوں نے کہا، ""ہم آئی ایم ایف کے ساتھ عملے کی سطح کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بہت قریب ہیں۔"
پاکستان آئی ایم ایف سے سال 2019 کے 6.5 ارب ڈالر کے معاہدے کی 1.1 ارب ڈالر کی قسط کے لیے مذاکرات کر رہا ہے۔ پروگرام کی بحالی گزشتہ کئی مہینوں سے تعطل کا شکار ہے جسے پاکستان کی مالی مشکلات میں اضافے کی ایک وجہ قرار دیا جارہا ہے۔
کچھ عرصے سے پاکستان کے وزیر خزانہ اور دیگر حکومتی اہلکار یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آوٹ پیکج جیو پولیٹکس یعنی جغرافیائی سیاست کی نظر ہو رہا ہے۔
پاکستان کے بعض حلقے یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ امریکہ اپنا اثرورسوخ پاک چین دوستی کی وجہ سے بھی استعمال نہیں کر رہا۔
واشنگٹن میں وائس آف امریکہ نے محکمہ خارجہ سے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات پر امریکی موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تو ایک ترجمان نے کہا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات پاکستان اور آئی ایم ایف حکام کے درمیان کا معاملہ ہے۔
ترجمان نے کہا، " امریکہ ان مذاکرات میں فریق نہیں ہے، تاہم ہم پاکستان کو آئی ایم ایف کے ساتھ اس کے اصلاحاتی پروگرام پر تعمیری انداز "میں بات چیت کی ترغیب دیتے ہیں۔"
ترجمان نے کہا، پاکستان کی اقتصادی سطح پر کامیابی اور اس کے لوگ ہماری اولین ترجیح ہیں اور ہم پاکستان کے ساتھ تکنیکی معاملات
، ترقیاتی امداد اور اپنے تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعلقات کو مستحکم کرنے سمیت وسیع تر معاملات میں شراکت داری جاری رکھیں گے۔"
اس سے قبل، آئى ایم ایف نے اس مسئلہ پر اپنے تازہ ترین بیان میں کہا تھا کہ ادارے کی ٹیم پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ عالمی ادارے کے ساتھ قرض کے معاہدے پر جلد پہنچا جا سکے۔
آئى ایم ایف کے ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کے سر براہ نیتھن پورٹرنے وائس آف امریکہ کے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ گزشتہ چند دنوں میں پاکستانی حکام نے "اپنی پالیسیوں کوبین الاقوامی مالیاتی فنڈ کےمعاشی اصلاحات کے پروگرام کے ساتھ مزید ہم آہنگ کرنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کیے ہیں ۔"
انہوں نے اس سلسلے میں ان اقدامات کو ذکر کیا، جن کے تحت پارلیمنٹ کی جانب سے ایسے بجٹ کی منظوری شامل ہے ، جس میں ٹیکس بیس کو وسعت دینا، زیادہ ترقیاتی اور سماجی اخراجات کی گنجائش پیدا کرنا، بیرونی ایکسچینج مارکیٹ یا منی مارکیٹ کی سرگرمیوں میں بہتری لانا اور افراط زر اور ادائیگیوں کے توازن میں دباؤ کم کرنے کے لیے مالیاتی پالیسی سخت کرنا شامل ہیں۔