اردن کے وزیر خارجہ نے پیر کے روز کہا ہے کہ جنگ سے تباہ حال مملکت شام کے برباد ہو جانے والے انفرا اسٹرکچر کی تعمیر نو کے لئے بین الا اقوامی سطح پر سرمایہ کاری کی جانی چاہئیے تاکہ دوسرے ملکوں میں مقیم شامی پناہ گزینوں کی واپسی کے عمل کو تیز کیا جا سکے.
اردنی وزیر خارجہ ایمن صفادی نے یہ بات شامی دارالحکومت دمشق کے اپنے دورے میں کہی، جہاں انہوں نے شام کے صدر بشار الاسد اور اپنے ہم منصب فیصل مقداد سے ملاقات کی۔
اردن نے، جس کی سرحد شام سے ملی ہوئی ہے، اور جو کوئی تیرہ لاکھ شامی پناہ گزینوں کی میزبانی کرتا ہے , شام کو عرب لیگ میں واپس لانے میں اہم کردار کیا ہے جو کبھی بالکل الگ تھلگ ہو کر رہ گیا تھا۔ اس نے اس سال مئی میں، شام، سعودی عرب، عراق اور مصر کے عہدیداروں کے درمیان علاقائی بات چیت کا اہتمام کیا اور خود اس کی میزبانی بھی کی۔ جسکا مقصد برسوں پرانے بحران کے ایک سیاسی حل کے لئےاقدامات کرنا تھا۔
SEE ALSO: شام سے لاپتہ ہونے والے ایک لاکھ تیس ہزار شہری کہاں گئے؟شام میں اٹھنے والی شورش میں جو بعد میں خانہ جنگی میں بدل گئی اور جس کا اب تیرھواں برس ہے، پانچ لاکھ کے قریب لوگ مارے گئے اور جنگ سے قبل اس کی دو کروڑ تیس لاکھ آبادی میں سے آدھی آبادی بے گھر ہو گئی۔
اور شام کے لوگ ، خواہ وہ حکومت کے کنٹرول والے علاقوں میں رہ رہے ہوں یا ملک کے شمال مغرب میں اپوزیشن کے زیر قبضہ محصور علاقوں میں ، بڑھتی ہوئی غربت اور تباہ حال انفرا اسٹرکچر کے باعث مصائب کا شکار ہیں۔
اپنی ملاقاتوں کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں صفادی نے کہا کہ ہم نے پناہ گزینوں کو ایک با عزت زندگی کو یقینی بنانےکے لئے جو کچھ بھی ہمارے بس میں تھا، سب دیا لیکن ہم یقینی طور پر یہ جانتے ہیں کہ پناہ گزینوں کا مستقبل ان کے اپنےملک میں ہی بن سکتا ہے۔
اردنی وزیر خارجہ نے کہا کہ اہم نوعیت کے انفرا اسٹرکچر کو محفوظ بناکر اور بنیادی سہولتیں فراہم کرکے ہی، پناہ گزینوں کی رضاکارانہ واپسی کی رفتار تیز ہو گی۔ خاص طور پر ایسی صورت میں جب کہ پناہ گزینوں کے لئے بین الاقوامی امداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔
SEE ALSO: نشہ آور دوا کیپٹا گون،شام کے صدر کے لئے عالمی تنہائی سے نکلنے کا ذریعہ کیسے بن رہی ہے؟صدر اسد نے بھی ایک بیان میں جو ان کے آفس نے جاری کیا، یہ کہتے ہوئے اسی قسم کے جذبات کا اظہار کیا کہ انفرا اسٹرکچر میں سرمایہ کاری اور تعمیر نو، پناہ گزینوں کی واپسی کے لئے بہترین ماحول فراہم کرے گی۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہم پھر سے تصدیق کرتے ہیں کہ پناہ گزینوں کا مسئلہ خالص انسانی اور اخلاقی مسئلہ ہے اور اسے کسی بھی طور سیاسی رنگ نہیں دیا جانا چاہئیے۔
ادھر دو اور پڑوسی ملکوں لبنان اور ترکی میں، جہاں شامی پناہ گزیں مقیم ہیں، ان پناہ گزینوں کے خلاف جذبات شدید ہو گئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
لیکن ایسے میں جب کہ حکومت کے کنٹرول والے شامی علاقوں میں، اقوام متحدہ کے اداروں کے ذریعے انسانی امداد پہنچ رہی ہے، مغرب کی زیر قیادت پابندیوں نے دمشق کے لئے بجلی، پانی اور دیگر بنیادی ڈھانچے کو درست کرنا مشکل بنا دیا ہے جو خانہ جنگی میں تباہ ہو گئے تھے۔ اور پھر حال ہی میں آنے والے سات اعشاریہ آٹھ شدت کے زلزلے نے انہیں مزید تباہ کیا۔
مغربی ممالک اور زیادہ واضح طور پرامریکہ اور برطانیہ کہتے ہیں کہ واپسی کے لئے ابھی شام محفوظ نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے اور حقوق انسانی کی تنظیمیں بھی یہ ہی کہتی ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس من مانے طور پر وہاں لوگوں کو پکڑنے اور غائب کئے جانے کے شواہد موجود ہیں۔
اسد اور مقداد کے ساتھ صفادی کی ملاقاتوں میں، شام میں انسانی بحران،تنازعے کے سیاسی حل کی جانب اقدامات اور منشیات کی اسمگلنگ کے موضوعات پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ منشیات کی اسمگلنگ اقتصادی طور پر تباہ حال اس ملک میں ایک منافع بخش کارو بار بن گیا ہے۔
اس رپورٹ کے لئے کچھ مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔