ویب ڈیسک۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے جمعرات کو ایک قرارداد کی منظوری دی ہے کہ ایک نیا آزاد ادارہ اس بات کا تعین کرے کہ شام میں لڑائی کےنتیجے میں لاپتہ ہونے والے ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد افراد کے بارے میں چھان بین کی جائے یا نہیں۔
یہ قراردادلا پتہ افراد کے اہل خانہ اورعزیزواقارب کی اپیلوں کے جواب میں منظور کی گئی ہے جسے 193 رکنی عالمی ادارے نے11 کے مقابلے میں 83ووٹوں سے منظور کیا جبکہ62 ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
قرارداد کی مخالفت کرنے والوں میں شام بھی شامل ہے جس نے کہا ہےکہ وہ کسی نئے ادارے کے ساتھ تعاون نہیں کرے گا۔ شام کے علاوہ روس، چین، شمالی کوریا، وینزویلا، کیوبا اور ایران نے بھی ووٹ نہیں دیا۔
لگسمبرگ کی زیرقیادت پیش کی جانے والی اس قرارداد میں کہا گیا کہ شام میں بارہ برس کی لڑائی کے بعد ’’لاپتہ ہونے والے افراد کی قسمت اور ان کے بارے میں جوابات فراہم کرنے میں بہت کم پیش رفت ہوئی ہےاور متاثرہ خاندانوں کی اذیت کو کم نہیں کیا جا سکا۔‘‘
اس قرار داد کے تحت اقوام متحدہ کی سرپرستی میں عرب جمہوریہ شام میں لاپتہ افراد کے بارے میں پتہ چلانے کے لئے ایک آزاد ادارے کے قیام کی اجازت ہو گی اور یہ ادارہ متاثرین، زندہ بچ جانے والوں اور لاپتہ افراد کے خاندانوں کو معلومات اور مناسب مدد فراہم کرے گا۔‘‘
قرارداد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس ادارے میں متاثرین، زندہ بچ جانے والوں اور لاپتہ افراد کے خاندانوں کی نمائندگی ہونی چاہئیے۔قرارداد کے تحت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس کو انہی 80 دنوں میں نئے ادارے کے لیے ٹرمز آف ریفرنس یعنی قواعدو ضوابط پیش کرنا ہوں گے اور تیزی سے ادارے کو قائم کرنے اور اسے فعال بنانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔
اقوام متحدہ کے سربراہ سے یہ درخواست بھی کی گئی ہے کہ وہ سو روز میں قرارداد پر عمل درآمد کی رپورٹ دیں۔
اقوام متحدہ میں لگسمبرگ کے سفیر اولیور مئیس نے ووٹنگ سے قبل جنرل اسمبلی کو بتایا تھا کہ ’’متاثرہ خاندانوں کو اور خاص طور پر خواتین کو، لاپتہ عزیزوں کی تلاش میں، انتظامی اور قانونی مشکلات، غیر یقینی مالی صورتحال اور گہرے صدمے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘
انہوں نے توجہ دلائی کہ اقوام متحدہ کے سربراہ نے گزشتہ اگست میں ایک رپورٹ میں سفارش کی تھی کہ اقوام متحدہ کے ارکان لاپتہ افراد کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے ایک آزاد ادارہ قائم کرنے پر غور کریں۔
شام کے سفیر بسام صباغ نے اس قرار داد کو ’’سیاست زدہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ واضح طور پر ’’ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت‘‘ کی عکاسی کرتی ہے اور امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے ’’مخاصمانہ مؤقف‘‘ کا نیا ثبوت ہے۔
انہوں نے کہا کہ شام اس قرارداد کی حمایت اس لئے نہیں کرے گا کہ اس نے لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کیا ہے، لا پتہ ہونے والے افراد کے معاملات کو قانون نافذ کرنے والے حکام کو پیش کرتے ہوئے کارروائی کی ہے اور ’’شام کے قانون کے مطابق اور دستیاب معلومات اور وسائل کی بنیاد پر آزادانہ طور پر تحقیقات بھی کی ہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کیلئے امریکہ کے نائب سفیر جیفری ڈی لارینٹس نے کہا ہے کہ لاپتہ افراد میں سے متعدد افراد کو بلاجواز حراست میں لیا گیا ہے۔ ان میں وہ افراد بھی شامل ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اسلامک اسٹیٹ یا داعش کی شدت پسند تحریک اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے پاس ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ تقریباً ہر شامی خاندان اس مسئلے سے متاثر ہے۔’’لاپتہ افراد کی حالت اور ان کے بارے میں تصدیق کرنا، ان کی رہائی کو یقینی بنانا، اور ہلاک ہونے والوں کی باقیات کو اہل خانہ کو واپس کرنا ایک اخلاقی اور انسانی ضرورت ہے۔‘‘
ڈی لارینٹس نے کہا کہ ’’ ہمیں یقین ہے کہ یہ ادارہ دمشق کی طرف سے محدود انداز میں یا کسی ابتدائی تعاون کےبغیربھی بامعنی طور پر پیش رفت کرے گا۔‘‘
شا م کا تنازعہ اب تیرھو یں سال میں داخل ہو چکا ہے۔اس لڑائی میں تقریباً پانچ لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ جنگ سے پہلے کے شام کی تئیس ملین آبادی میں سے نصف بے گھر ہو گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے اندازوں کا حوالہ دیتے ہوئے لاپتہ افراد سے متعلق بین الاقوامی کمیشن نے کہا ہے کہ 2021 میں تنازعات کے نتیجے میں ایک لاکھ تیس ہزار سے زیادہ شامی شہری لاپتہ ہوئے ہیں ۔
ووٹنگ کے بعد، سول سوسائٹی کی 100 سے زیادہ تنظیموں اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے 23 ماہرین نے جنرل اسمبلی پر زور دیا کہ وہ ایک آزاد ادارہ قائم کرے۔
انسا نی حقوق کے علمبردار اداروں "ایمنسٹی انٹرنیشنل ، ہیومن رائٹس واچ" اور ایک درجن شامی گروپوں نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ لاپتہ افراد کے خاندانوں کے ’’حقائق جاننےکے حق‘‘ کے حصول کی حمایت کریں۔ انہوں نے توجہ دلائی کہ "انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس " اور دیگر اداروں نے بھی اس مطالبے کی حمایت کی ہے۔
(وی او اے نیوز)