صوبہ خیبر پختون خوا کی خواتین دہشت گردوں کی فہرست میں نام شامل ہونے پر معروف سماجی کارکن گلائی اسماعیل نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا ہے کہ اس اقدام سے انسداد دہشت گردی کے محکمے (سی ٹی ڈی ) نے اپنا مذاق اڑایاہے ۔
کے پی کے انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ نے جمعہ کو 50 سے زیادہ ایسی خواتین کی فہرست جاری کی جو ادارے کے مطابق، 2014 سے صوبے میں مختلف نوعیت کی دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھیں۔امریکہ میں مقیم معروف سماجی کارکن گلالئی اسماعیل کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے ۔
امریکہ میں جلا وطن گلالئی اسماعیل پر الزام ہے کہ وہ شدت پسندوں کو مالی معاونت فراہم کرتی رہی ہیں ۔ سی ٹی ڈی میں ان کے خلاف انسداد دہشتگردی قانون کے تحت دفعات درج کی گئی ہیں ۔
گلالئی اسماعیل نے اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ سی ٹی ڈی کا یہ اقدام اس بات کا عکاس ہے کہ " پورا محکمہ کتنا جعلی ہے اور ان کی کارروائیاں آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا کچھ نہیں۔
سی ٹی دی کی جاری کردہ فہرست کے مطابق 30 خواتین دہشت گردی کے واقعات میں، 13 اغوا، 2 بھتہ خوری، 3 ٹارگٹ کلنگ اور 3دہشت گردی کی مالی معاونت میں ملوث تھیں۔
سی ٹی ڈی کے ڈی آئی جی عمران شاہد نے کہا کہ انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ان دہشت گردخواتین کو، ثقافتی اور روایتی اقدار کی وجہ سے گرفتار کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان خواتین مجرموں یا دہشت گردوں تک پہنچنے کے لئے ان کے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان خواتین دہشت گردوں کے خلاف مختلف تھانوں میں مقدمات درج ہیں اور کچھ مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
گلالئی اسماعیل کا نام خواتین دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہونے پر انسانی حقوق کے متعددکار کنوں اور سیاسی شخصیات نے سوشل میڈیاپر اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
قومی اسمبلی کے سابق رکن محسن داورنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ گلالئی نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے لیڈر ز میں سے ایک ہیں۔اور امن کے لئے کام کرتی ہیں ، انہیں امن کا مطالبہ کرنے پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کی کارکن منیزہ کاکڑ نے اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے "غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنانا پہلے سے موجود تشویش ناک رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ آئیے اس طرح کے بے بنیاد الزامات کی مذمت میں متحد ہوں"۔
سابق رکن پارلیمنٹ بشری گوہر کہتی ہیں کہ "میں گلالئی کو بچپن سے جانتی ہوں، انہیں آپ ان کے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹا سکتے"۔
سی ٹی ڈی کے دستاویز میں بتا یایا گیا ہےکہ پشاور کے مختلف تھانوں میں 18 خواتین کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج ہیں، ان مقدمات میں سے 9 خواتین کو بری کر دیا گیا جب کہ دیگر کے مقدمات عدالت میں ہیں۔