رسائی کے لنکس

کوہستان میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات؛ 'کئی کیسز تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے'


پاکستان کو چین کے ساتھ ملانے والی شاہراہِ قراقرم پر خیبرپختونخوا کے پسماندہ علاقے کوہستان میں غیرت کے نام پر خواتین کو قتل کرنے کے متعدد واقعات سامنے آ چکے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکن اسے ریاستی اداروں کی ناکامی جب کہ بعض مبصرین فرسودہ روایات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔

ایک ہفتہ قبل کوہستان میں ایک اور لڑکی کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کا واقعہ سامنے آیا جس کے بعد علاقے میں کرفیو جیسی صورتِ حال ہے۔

پولیس سمیت دیگر ادارے واقعے میں ملوث افراد کی گرفتاری کا دعویٰ کر رہے ہیں۔

پولیس حکام کے بقول واقعے سے مبینہ تعلق کی بنا پر اب تک متعدد افراد گرفتار کیے گئے ہیں جب کہ دیگر کو گرفتار کرنے کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

کوہستان میں لڑکی کے قتل پر انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں احتجاج اور ملوث افراد کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

واضح رہے کہ چند دن پہلے ایک لڑکی کو گھر کے افراد نے مشاورت کے بعد فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ کوہستان کے علاقے کولئی پالس کی دو لڑکیوں کی دو نوجوانوں کے ساتھ موبائل فون سے لی گئی تصاویر اور ویڈیوز 22 نومبر کو وائرل ہوئی تھیں۔

پولیس حکام کے مطابق ان تصاویر کے وائرل ہونے کے بعد 23 نومبر کو ایک لڑکی کے والد اور دیگر اہلِ خانہ نے جرگے کے فیصلے کے بعد اسے فائرنگ کرکے قتل کیا تھا۔

لڑکی کو گھر کے اندر پستول سے گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا۔ پولیس نے اس واقعے کا مقدمہ 24 نومبر کو درج کیا تھا۔

لڑکی کے والد سمیت متعدد رشتے دار گرفتار

ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) مسعود خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ غیرت کے نام پر قتل کی گئی لڑکی کے والد سمیت قریبی رشتہ داروں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ عدالت نے ان افراد کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔

کوہستان کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) مختیار تنولی نے قبل ازیں بیان جاری کیا تھا کہ اس کیس میں تین ملزمان کو بدھ کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

جن ملزمان کو عدالت نے پولیس کے ریمانڈ میں دیا ہے ان میں لڑکی کے سگے چچا، والد کے کزن اور ایک رشتہ دار شامل ہیں۔

مختیار تنولی کا کہنا تھا کہ بشام کے علاقہ مجسٹریٹ کی عدالت نے ملزمان کو چھ روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ لڑکی کے قتل میں ملوث اس کے والد کا سات روزہ ریمانڈ ایک روز قبل عدالت سے حاصل کر لیا گیا تھا۔

ڈی پی او کے مطابق یہ تمام گرفتار ملزمان لڑکی کو قتل کرنے کے مشورے میں شامل تھے۔

تین افراد پولیس کی حفاظتی تحویل میں موجود

پولیس نے اس واقعے کے بعد ایک اور خاتون سمیت تین دیگر افراد کو حفاظتی تحویل میں بھی لیا ہے جن کے حوالے سے خدشہ ہے کہ ان کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

ڈی ایس پی مسعود خان نے اس حوالے سے بتایا کہ پولیس نے دو دیگر لڑکوں کو بھی حراست میں لیا ہے جن میں سے ایک کے ساتھ قتل کی جانے والی لڑکی کی تصویر وائرل ہوئی تھی۔ ان لڑکوں نے عدالت میں بیان دیتے وقت ان تصاویر سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وائرل تصاویر میں نظر آنے والی دوسری لڑکی کی شادی کر دی گئی ہے۔ ان کے بقول اس لڑکی نے عدالت میں پیش ہو کر بیان قلم بند کرا دیا ہے۔

پاکستانی تارکین وطن میں غیرت کے نام پر قتل میں اضافہ؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:10 0:00

تصاویر وائرل کرنے والے ملزم کا سراغ لگانے کی کوشش

پولیس اس شخص کو بھی تلاش کرنے میں مصروف ہے جس نے ان افراد کی تصاویر وائرل کی ہیں۔

ڈی پی او نے اس حوالے سے بتایا کہ تصاویر وائرل کرنے والے ملزم کی تلاش کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے مدد لی جا رہی ہے۔

ان کے بقول ایف آئی اے کا سائبر کرائمز ونگ تصاویر وائرل کرنے والے شخص کی تلاش میں معاونت کر رہا ہے۔

انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی مذمت

پاکستان میں انسانی حقوق کے غیر سرکاری ادارے ’ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان‘ (ایچ آر سی پی) نے اس واقعے کی مذمت کی ہے۔

'ایچ آر سی پی' کے مطابق اس لڑکی کو خاندان کے افراد نے ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد قتل کیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ لڑکی کے قتل کی درحقیقت کوہستان میں ایک مقامی جرگے کی طرف سے منظوری دی گئی تھی۔

ایچ آر سی پی نے بیان میں جرگے کے تین ارکان کی گرفتاری کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریاست کو یہ بھی یقینی بنانا ہو گا کہ ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد جمع کر کے انہیں سزا دی جائے۔

کوہستان میں ماضی میں بھی ایسے واقعات سامنے آئے ہیں

یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جس میں کوہستان میں غیرت کے نام پر لڑکی کے قتل کا معاملہ سامنے آیا ہو۔

اس واقعے سے قبل 2012 میں کوہستان میں ایک شادی میں رقص کی ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس کے بعد مقامی جرگے نے متعدد لڑکیوں اور نوجوانوں کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بعض مبصرین کے مطابق حالیہ قتل کی مماثلت اس واقعے سے بھی ہے۔

سال 2012 میں اس ویڈیو کی وجہ سے افضل کوہستانی کے تین بھائیوں کو گھر میں گھس کر قتل کیا گیا تھا۔ اس کے بعد افضل کوہستانی نے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف آواز اٹھنا شروع کی تو 2019 میں انہیں بھی ایبٹ آباد میں قتل کر دیا گیا۔

قتل کیے جانے والوں میں افضل کوہستانی اور ان کے تین بھائی شامل تھے۔ لڑکیوں کو قتل کرنے کا معاملہ بھی افضل کوہستانی ہی منظر عام پر لائے تھے۔

خیبر پختونخوا میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات

ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ 2022 میں خیبر پختونخوا میں لگ بھگ 103 افراد کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔

بیان کے مطابق ریاست کو خواتین کے خلاف تشدد سے نمٹنے کے لیے طویل مدتی اقدامات کرنے چاہئیں۔

غیرت کے نام پر قتل کے حالیہ واقعے پر سیاسی اور سماجی رہنما بھی مذمت کر رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کی سابق رکن اور نیشنل ڈیمو کریٹک موومنٹ (این ڈی ایم) کی رہنما بشری گوہر کہتی ہیں کہ غیر قانونی جرگوں کا فعال ہونا اور قانون کو ہاتھ میں لینے سے حکومت کی ناکامی اور نا اہلی ظاہر ہوتی ہے۔

بشریٰ گوہر نے ایک بیان میں حالیہ واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ذمہ دار افراد کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا ۔

کوہستان کی انتظامی تقسیم

خیبر پختونخوا کے شمالی پہاڑی خطے میں موجود کولئی پالس اس کوہستان کا حصہ ہے جس کو چند برس قبل سابق وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک کے دور میں تین اضلاع میں تقسیم کیا گیا تھا ۔

تینوں اضلاع پر مشتمل قومی اسمبلی کا ایک ہی حلقہ ہے جب کہ تینوں اضلاع سے ایک ایک ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوتا ہے۔

پاکستان میں گزشتہ عام انتخابات 2018 میں ہوئے تھے جن میں کوہستان سے رکن قومی اسمبلی جمعیت علماء اسلام (ف) کے آفرین خان منتخب ہوئے تھے جب کہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کولئی پالس سے مسلم لیگ (ق) کے عبید الرحمٰن کو کامیابی ملی تھی۔ باقی دو نشستوں سے آزاد امیدوار منتخب ہوئے تھے۔ البتہ صوبائی اسمبلی کے ارکان سابق حکمراں جماعت تحریکِ انصاف سے جڑے رہے۔

شرح خواندگی میں کمی

شاہراہ قراقرم کے دائیں جانب سنگلاخ پہاڑی چٹانوں اور وادیوں پر مشتمل کولئی پالس کی آبادی کے حوالے سے بٹگرام کے صحافی انوار اللہ خان کہتے ہیں کہ یہاں کی آبادی لگ بھگ دو لاکھ 60 ہزار ہے۔ یہاں غربت بہت زیادہ ہے جب کہ یہاں کے مکینوں کا ذریعہ معاش زراعت ہے۔ علاقے کے بعض گھرانوں کے مرد دوسرے شہروں میں بھی محنت مزدوری کے لیے جاتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کوہستان کے اس علاقے میں تعلیمی ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جہاں کوئی تعلیمی ادارہ قائم بھی ہے تو وہاں طلبہ کی تعداد انتہائی کم ہے۔

ان کے بقول ان علاقوں میں قائم اسکولوں میں تعینات اساتذہ کا تعلق دیگر اضلاع سے ہوتا ہے۔ اکثر اساتذہ یہاں پر صرف تنخواہ وصول کرنے آتے ہیں۔ اسی طرح کی وجوہات کے سبب آبادی میں خواندگی کی شرح انتہائی کم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خواندگی کی کم شرح کے سبب علاقے کی خواتین کو ووٹ کا حق دینا تو دور کی بات ہے یہاں ان سے بہتر سلوک بھی روا نہیں رکھا جاتا۔

روزگار کے محدود مواقع

انوار اللہ خان نے کہا کہ کوہستان میں کولئی پالس کے باشندوں کو نسلاََ پشتون نہیں سمجھا جاتا۔ البتہ آبادی کی اکثریت پشتو بولتی ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ سکندرِ اعظم کے لشکر میں ترک نسل سے تعلق رکھتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ غربت، پسماندگی اور ذرائع روزگار نہ ہونے کے باعث لوگ کوہستان کے ساتھ واقع علاقوں شانگلہ، بیشام، بٹگرام اور مانسہرہ تک جاتے رہتے ہیں۔

کوہستان میں یہ واقعات کیوں ہو رہے ہیں؟

انوار اللہ خان کا مزید کہنا تھا کہ علاقے کے لوگوں کے حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ قطعی طور پر زیادہ مذہبی نہیں ہیں۔ البتہ بعض لوگ فرسودہ روایات پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

ان کے بقول یہی وجہ ہے کہ غیرت کے نام پر خواتین یا نوجوانوں کو قتل کرنے کے واقعات عرصۂ دراز سے یہاں ہوتے رہے ہیں۔

ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ غیرت کے نام پر قتل کے زیادہ تر واقعات کی پولیس یا قانون نافذ کرنے والے اداروں میں رپورٹ درج ہی نہیں کی جاتی بلکہ خاموشی سے ان کی تدفین کو ممکن بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

XS
SM
MD
LG