ستار کاکڑ
اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک اور بلوچستان کے محکمہ صحت اور منصوبہ بندی و تر قیات کے اشتراک سے بلوچستان میں بچوں کو غذائی قلت سے بچانے سے متعلق بلوچستان میں تین سالہ منصوبہ شروع کر دیا گیا ہے۔
اس موقع پر تقر یب سے خطاب کرتے ہوئے آسٹریلیا کی ہائی کمشنر مارگریٹ ایڈمسن نے کہا ان کے ملک کی حکومت نے انسانی ہمددردی کی بنیاد پر غذائیت کی کمی دور کرنے کے جاری منصوبوں کے لئے امداد ی رقم میں چار گنا اضافہ کردیا ہے۔
عالمی ادارہ خوراک کے کنٹری ڈائریکٹر فنبرکیورین کا کہنا تھا کہ خوراک کا عالمی ادارہ، بلوچستان میں غذائی قلت کے خاتمے اور ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے اپنی معاونت جاری رکھے گا ۔
اس تین سالہ منصوبے کے تحت بلوچستان کے ضلع پشین میں20 ہزار حاملہ خواتین، بچوں کو دودھ پلانے والی ماؤں اور پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو غذائیت سے بھر پور خوراک فراہم کی جائے گی ۔
عالمی ادارہ خوراک کی ایک رپورٹ میں بلوچستان میں غذائیت کی کمی کی شرح کو خو فناک قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ صوبے کے پانچ سال سے 50 فیصد سے زیادہ بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہیں اور ان کی افزائش کا تناسب بھی سب کم ہے جب کہ صوبے کی 16 فی صد آبادی کو بھی غذائیت کی کمی کے مسئلے کا سامنا ہے۔
صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ صوبے کے 70 فیصد بچوں اور ایک تہائی حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں پر اس کے اثرات نمودار ہو رہے ہیں۔
صوبائی وزیر صحت میر رحمت صالح بلوچ کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ کافی سنگین ہو چکا ہے اور اسے ہنگامی اور تر جیحی بنیاد وں پر حل کرنے کے لئے اقدامات شروع کر دیئے گئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے بچوں میں غذائیت کی کمی ایک گھمبیر صورت اختیار کر گئی ہے۔ ہم تمام اضلاع کا سروے کر رہے ہیں۔ سروے کے بعد جو اعداد وشمار آئیں گے، انہیں مدنظر رکھتے ہوئے حکومت پورے صوبے میں ہنگامی اقدامات کیے جائیں گے اور پاکستان میں کام کر نے والے بین الاقوامی امدادی اداروں کی ایک کانفرنس کے انعقاد کے ذریعے اس مسئلے پر قابو پانے کی کوشش کی جائے گی۔
آغا خان یونیورسٹی کے ایک سروے کے مطابق پاکستان بھر کے 20 اضلاع کے لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں جن میں سے 10 اضلاع کا تعلق بلوچستان سے ہے۔
صوبائی حکومت کے ذرائع کے مطابق بلوچستان کی 61 فیصد غذائی قلت کا شکار ہے۔ 80 فیصد گھرانے بہتر خوراک حاصل نہیں کر سکتے۔ 40 فیصد بچے مناسب غذا نہ ملنے سے لا غر اور دبلے پن کا شکار ہیں۔ 49 فی صد خواتین اور 57 فیصد بچے خون کی کمی کا شکار ہیں ۔
بلوچستان حکومت نے دو سال پہلے آسٹریلیا اور عالمی بینک کے تعاون سے ایک ارب 45 کروڑ روپے مالیت کا ایک منصوبہ شروع کیا تھا، جس کے تحت 7 اضلاع میں آئندہ تین برسوں تک ماں اور بچے کی غذائی ضروريات کو پورا کرنے کے لیے عمل درآمد ہو رہا ہے۔
صوبائی حکومت نے آسٹریلیا اور عالمی بینک سے اس منصوبے میں پشین اور نوشکی کو بھی شامل کرنے کی درخواست کی ہے۔