سندھ کی حکومت،، صوبے کے انسپکٹر جنرل پولیس کو ہٹانے کے لئے ایک پھر سرگرم ہے۔ سندھ حکومت نے موجودہ آئی جی سندھ کی خدمات وفاقی حکومت کو واپس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان کے دوسرے بڑے صوبہ سندھ میں اعداد و شمار کے مطابق اس سال کے پہلے نو ماہ کے دوران 306 افراد قتل، اغواٗ برائے تاوان کے 10 واقعات جبکہ بھتہ طلب کرنے کے 47 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ صوبے بھر میں 8 بینک ڈکیتیوں میں ملزمان کئی کروڑ روپے لے اڑے ہیں جبکہ موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کی چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ لیکن دوسری جانب اسی صوبے میں پولیس کے سب سے بڑے عہدے انسپکٹر جنرل پولیس اور حکومت کے درمیان اختیارات کی رسہ کشی جاری ہے۔ تقریبا ایک سال سے جاری اس سرد جنگ اس نہج پر جا پہنچی ہے جہاں محسوس ہوتا ہے کہ سندھ حکومت کے لئے موجودہ آئی جی کی موجودگی درد سر بن چکی ہے۔
ہفتے کو صوبائی کابینہ کا اجلاس وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت ہوا جس میں موجودہ آئی جی سندھ اللہ ڈنو خواجہ کو عہدے سے ایک بار پھر ہٹانے پر 'اتفاق' کیا ہے۔ کابینہ نے اس بات پر بھی اتفاق رائے کا اظہار کیا ہے کہ اللہ ڈنو خواجہ کی خدمات وفاقی حکومت کو واپس کی جائیں جبکہ سردار عبدالمجید دستی کو نیا آئی جی سندھ تجویز کیا گیا ہے۔ تاہم صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ کے مطابق کابینہ نے اب بھی اس کی حتمی منظوری نہیں دی ہے۔
اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ انسپکٹر جنرل سندھ کی پوسٹ گریڈ 22 کے افسر کے لئے ہے جبکہ اس وقت آئی جی سندھ کے عہدے پر فائز اے ڈی خواجہ گریڈ 21 میں تعینات ہیں۔
وفاقی حکومت نے فی الحال اے ڈی خواجہ کو اگلے گریڈ میں ترقی نہیں دی لیکن سندھ پولیس کے ایک اور افسر سردارعبدالمجید دستی کو گریڈ 22 میں ترقی مل چکی ہے اور اسی لئے سندھ حکومت انہیں نیا آئی جی سندھ مقرر کرنا چاہتی ہے۔
سندھ حکومت کے پاس ایک اور دلیل یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ نے آؤٹ آف ٹرن تعیناتیوں کو غیرقانونی قرار دے رکھا ہے۔ اس لئے فیصلے پر عملدرآمد کے لئے ضروری ہے کہ گریڈ 22 کے افسر کو آئی جی مقرر کیا جائے۔ سندھ حکومت کا موقف ہے کہ جب اے ڈی خواجہ کو آئی جی سندھ مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اس وقت ان سے سینیر کوئی اور افسر موجود ہی نہیں تھا لیکن اب صورتحال تبدیل ہوچکی ہے۔
سندھ کابینہ نے پولیس سروسز رولز میں ترامیم کی بھی منظوری دے دی ہے جس کے تحت آئی جی سندھ کی تعیناتی کا دورانیہ پانچ سال سے کم کر کے ایک سال کردیا گیا ہے۔
دوسری جانب آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کا موقف ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں صوبے میں کل 17 آئی جی تبدیل کئے گئے۔ ان میں سے 14 آئی جی 21 گریڈ ہی کے تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جب انہیں آئی جی مقرر کیا گیا تو اس وقت بھی سپریم کورٹ کا یہ حکم موجود تھا جبکہ انہیں اس پوسٹ پر تعینات کرنے کے لئے وفاقی حکومت نے سندھ حکومت سے مشاورت بھی کی گئی تھی۔
سندھ ہائی کورٹ نے 7 سمتبر کو آئی جی سندھ کو ہٹانے کے لئے جاری نوٹیفیکیشن کالعدم قرار دے دیا تھا۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ سندھ گورنمنٹ رولز 1986ء کے تحت آئی جی کی مدتِ ملازمت پانچ سال ہے اور اس مدتِ ملازمت کے قانون پر عمل کرنا سندھ حکومت کے لیے لازم ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق اگر سندھ حکومت یا کابینہ سمجھتی ہے کہ آئی جی خلافِ ضابطہ تعینات ہیں تو انہیں انیتہ تراب کیس میں دیے جانے والے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی ہی میں ٹھوس وجوہات ہی کی بنا پر ہٹایا جاسکتا ہے۔
سندھ حکومت نے سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا بھی فیصلہ کیا ہے جس کے تحت پیر کے روز سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جائے گی جس کے لئے قانونی مشاورت اور آئینی درخواست تیار کرلی گئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی جی سندھ اور حکومت سندھ کے درمیان جاری سرد جنگ سے سندھ میں پولیسنگ بے حد متاثر ہورہی ہے اور محکمے کا برا حال ہے۔ جبکہ صوبے میں جرائم کی بڑھتی ہوئی تعداد کو بھی کم نہیں کیا جاسکا ہے۔ اگرچہ صوبائی دارالحکومت اور ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں سندھ رینجرز کے ٹارگیٹڈ آپریشن کے باعث ٹارگٹ کلنگ جیسے گھناونے جرائم فی الحال قابو میں ہیں لیکن شہر میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتیں معمول کے مطابق بے لگام ہیں۔
ماہرین اس کشمکش کی وجہ قانون کی بالاستی نہیں بلکہ سیاسی قرار دیتے ہیں۔ ہائی کورٹ کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے کے بعد امید تھی کہ یہ کشمکش ختم ہوگی لیکن سندھ حکومت کی جانب سے فیصلے کو چیلنج کرنے اور قوانین کو تبدیل کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فی الحال یہ جنگ جاری ہے اور اس رسہ کشی میں عوام جرائم پیشہ افراد کے رحم و کرم پر ہی رہیں گے۔