سندھ ہائی کورٹ نے صوبے کے انسپکٹر جنرل پولیس کی خدمات وفاق کو واپس کرنے اور سردار عبدالمجید دستی کو نیا آئی جی تعینات کرنے کا صوبائی حکومت کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ نے پولیس ایکٹ اور آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو عہدے سے ہٹانے کے خلاف درخواست پر جمعرات کو فیصلہ سنایا۔
اپنے فیصلے میں عدالت نے آئی جی سندھ کو عہدے سے ہٹانے سے متعلق سندھ حکومت کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت آئی جی کو صرف ٹھوس وجوہات کی بنا پر ہی ہٹا سکتی ہے۔
جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے درخواست کا فیصلہ 30 مئی کو محفوظ کیا تھا۔
سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر ضمیر گھمرو نے کہا کہ فیصلے میں کئی سقم ہیں جنہیں چیلنج کیا جائے گا۔
اٹھانوے صفحات پر مشتمل عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سندھ گورنمنٹ رولز 1986ء کے تحت آئی جی کی مدتِ ملازمت پانچ سال ہے اور اس مدتِ ملازمت کے قانون پر عمل کرنا سندھ حکومت کے لیے لازم ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگر سندھ حکومت یا کابینہ سمجھتی ہے کہ آئی جی خلافِ ضابطہ تعینات ہیں تو انہیں انیتہ تراب کیس میں دیے جانے والے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی ہی میں ہٹایا جاسکتا ہے۔
عدالت کے فیصلے میں سندھ کابینہ کی جانب سے آئی جی سندھ کو ہٹانے کے فیصلے کی توثیق کو بھی کالعدم قرار دیا گیا ہے۔
فیصلے کے مطابق آئی جی سندھ، پولیس کی کمانڈ اور آپریشن میں مکمل طور پر خودمختار ہیں جنہیں صرف تقرریوں اور تبادلوں کا ہی نہیں بلکہ فورس کے معاملات میں مداخلت روکنے کا بھی کُلی اختیار حاصل ہے۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ پولیس فورس میں وزرا سمیت کسی کی بھی مداخلت نہیں ہونی چاہیے جب کہ آئی جی کے اختیارات کو بلاواسطہ یا بلواسطہ کم کرنا قانون کے خلاف ہے۔
عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ پولیس کا ڈھانچہ واضح ہے جس کی کمانڈ آئی جی کے پاس ہے۔ پولیس کی خودمختاری اور آزادی اس کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ صوبائی حکومت یا کابینہ بھی آئی جی کی مدتِ ملازمت رولز کی روشنی میں تین سال سے کم نہیں کرسکتی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں سندھ اسمبلی کی جانب سے پولیس ایکٹ 1861ء کی بحالی کو قانون کے مطابق قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ صوبائی اسمبلی کو پولیس قوانین میں ترامیم کا اختیار حاصل ہے۔
سندھ ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ پر کرامت علی اور دیگر کی درخواستوں پر جاری کیا ہے جنہوں نے 1861ء کے پولیس ایکٹ کی بحالی اور پھر آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو عہدے سے ہٹانے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔
عدالت نے آئی جی سندھ کو عہدے سے ہٹانے کے سندھ حکومت کے فیصلے کے خلاف حکمِ امتناع جاری کرتے ہوئے انہیں عدالت کے فیصلے تک کام جاری رکھنے کا حکم دیا تھا۔
رواں برس یکم اپریل کو سندھ حکومت نے ایک بار پھر آئی جی سندھ اللہ ڈنو خواجہ کی خدمات وفاق کے حوالے کرنے کے لیے اسلام آباد کو خط لکھا تھا، جس میں مذکورہ عہدے کے لیے سردار عبدالمجید دستی، خادم حسین بھٹی اور غلام قادر تھیبو کے ناموں کی تجویز دی گئی تھی۔
تاہم خط بھیجے جانے کے اگلے ہی روز حکومتِ سندھ نے اے ڈی خواجہ کی خدمات وفاق کے حوالے کرتے ہوئے 21 گریڈ کے آفیسر سردار عبدالمجید دستی کو از خود آئی جی مقرر کردیا تھا۔
عدالت نے اسے حکمِ امتناع کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے سندھ حکومت کا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا جس کے بعد درخواست کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کی گئی تھی اور سماعت مکمل ہونے پر 30 مئی کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
عدالتی حکم امتناع کے باعث آئی جی سندھ عہدے پر تو برقرار رہے لیکن پولیس سربراہ اور حکومتِ سندھ کے درمیان کشمکش اور محاذ آرائی گزشتہ کئی ماہ سے جاری تھی۔
اس دوران سندھ حکومت نے پولیس فورس میں کئی تبادلے آئی جی سے مشاورت کے بغیر ہی کیے جب کہ امن و امان سے متعلق کئی اہم اجلاسوں میں بھی انہیں مدعو نہیں کیا گیا۔