پاکستان کے نوجوان فاسٹ باؤلر محمد عامر اسپاٹ فکسنگ کی پاداش میں پانچ سالہ پابندی بھگتنے کے بعد کرکٹ کے میدان میں واپس آ چکے ہیں اور ان دنوں ڈھاکا میں بنگلہ دیش پریمیئر لیگ میں اپنی شاندار کارکردگی کے باعث ایک بار پھر توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔
لیکن پاکستان کرکٹ ٹیم میں ان کے مستقبل پر اب بھی رائے منقسم ہے اور بعض سینیئر کھلاڑیوں کی طرف سے انھیں ٹیم میں شامل نہ کرنے کے موقف کے بعد صورتحال کچھ پیچیدہ ہو گئی ہے۔
اس مبہم صورتحال کا اعتراف پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان نے بھی کیا ہے۔
جمعرات کو لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ٹیم میں دھڑے بندی نہیں لیکن محمد عامر کو شامل کیے جانے سے متعلق کسی فیصلے پر اس کا احتمال ہو سکتا ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ نوجوان فاسٹ باؤلر کو ٹیم میں شامل کرنے کا فیصلہ کوچ اور سلیکٹر کی آمادگی اور پی سی بی کی گورنگ باڈی سے اجازت کے بعد ہی کیا جائے گا۔
"اگر ہم محمد عامر کے بارے میں سوچیں جو کہ ہم سوچ رہے ہیں تو ہمیں دو چیزیں کرنا ہوں گی۔ ایک تو مجھے اور سینیئر پلیئرز کو محمد عامر کو بلا کر سمجھانا ہے کہ اگر آپ (ٹیم میں) آتے ہو تو آپ کے رویے میں انکساری ہونی چاہیئے، وہ صحیح سمت میں ہونا چاہیئے۔۔۔تھوڑی بہت پیچیدگیاں ہیں لیکن انھیں ہم دور کریں گے، ایک پالیسی بنائیں گے۔"
اگست 2010ء میں انگلینڈ کے خلاف لارڈز میں کھیلے گئے ایک میچ میں محمد عامر نے اسپاٹ فکسنگ کرتے ہوئے دانستہ طور پر دو نو بالز کروائیں اور الزام ثابت ہونے پر آئی سی سی نے ان پر پانچ سال کے لیے کرکٹ کھیلنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
بنگلہ دیش پریمیئر لیگ میں اب تک کھیلے گئے سات میچوں میں 23 سالہ محمد عامر نے نو وکٹیں حاصل کی ہیں۔
قومی کرکٹ ٹیم کے کوچ وقار یونس کہتے ہیں کہ محمد عامر اچھی فارم میں ہیں اور انھیں دوبارہ ٹیم میں موقع دیا جانا چاہیئے۔
صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ "میری چیئرمین صاحب سے اس بارے میں تفصیل سے بات ہوئی۔ اگر اس (عامر) نے اپنی سزا کاٹ لی ہے تو میرا خیال ہے کہ اس کا حق بنتا ہے کہ دوبارہ آئے، وہ اچھی فارم میں ہے اس نے آئی سی سی کو بھی ثابت کیا کہ پی سی بی کو بھی ثابت کیا ہے کہ وہ صحیح سمت ہے۔"
محمد عامر نے 2009ء میں قومی ٹیم کی طرف سے کھیلنا شروع کیا لیکن سفر صرف ایک سال تک ہی جاری رہ سکا۔ اس مختصر عرصے میں انھوں نے 14 ٹیسٹ میچوں میں 51 جب کہ 15 ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں 25 وکٹیں حاصل کی تھیں۔