پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں آئس نشے کا بڑھتا استعمال نوجوانوں میں مبینہ طور پر بڑے جرائم کا سبب بنتا جا رہا ہے۔
لاہور کے گلشن اقبال کا رہائشی نوجوان رواں سال 25 جنوری کو دوست کے ساتھ گیا لیکن واپس نہیں آیا۔ پولیس نے مقدمہ درج کرکے عبداللہ کے دوست عمار کو حراست میں لیا تو اس نے چونکا دینے والا انکشاف کیا۔
عمار کے مطابق اس نے عبداللہ کی لاش ضلع قصور کی تحصیل چونیاں کے قریب جمبر نہر میں پھینک دی تھی۔
پولیس کو دیے جانے والے اس بیان سے قبل عمار اپنے دوست عبد اللہ کے گھر والوں سے ٹال مٹول کرتا رہا تھا۔ عمار کے علاوہ مزید دو نوجوانوں کو بھی حراست میں کیا گیا ہے۔ جو عبداللہ کے ہی دوست بتائے جاتے ہیں۔
اس حوالے سے ایک تفتیشی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ سب دوست آئس نشے کے عادی تھے۔ نشے کے دوران انہوں نے مبینہ طور پر عبداللہ کا قتل کیا جب کہ معاملہ چھپانے کے لیے انہوں نے لاش نہر میں پھینک دی۔
“یہ سب دوست آئس نشہ کرتے تھے۔ وقوعہ کی رات بھی سب دوستوں نے آئس نشہ کیا تھا۔ نشے کی حالت میں یہ سب ایک دوسرے سے مذاق کرنے لگے، مذاق مذاق میں ان کا جھگڑا ہو گیا اور عبدللہ کی جان چلی گئی۔ جس پر یہ سب دوست گھبرا گئے اور اُس کی لاش نہر میں پھینک دی۔”
زیرحراست نوجوانوں کی نشاندہی پر نہر میں تلاش کے باوجود عبداللہ کی لاش نہیں مل سکی۔
پنجاب ایمرجنسی ریسکیو سروسز کے مطابق اُنہوں نے عبداللہ کی تلاش کی بہت کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔ ممکن ہے کہ عبداللہ کے زیر حراست دوستوں کی یہ ایک سب ایک من گھڑت کہانی ہو لیکن اس بیان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
Your browser doesn’t support HTML5
علامہ اقبال ٹاؤن کی پولیس کے سپرنٹنڈنٹ (ایس پی) محمد اجمل کہتے ہیں کہ یہ کیس سلجھنے کی بجائے اُلجھتا جا رہا ہے۔ پولیس اپنی تفتیش کر رہی ہے اور اُمید ہے کہ کیس کی تفتیش کو جلد مکمل کر لیا جائے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ایس پی اقبال ٹاون نے بتایا کہ کیس میں بہت سے عوامل ہیں جن پر تفتیش چل رہی ہے اور اب اس کیس کی تفتیش سی آئی اے کر رہا ہے۔
“اِس کیس کی ابتدائی تفتیش میں پہلے منشیات کے استعمال کی بات سامنے آئی تھی۔ تفتیشی افسر کی تفصیل کے مطابق عمار کی اہلیہ اور عبداللہ ملک کی مبینہ دوستی تھی۔ جس کے باعث عبداللہ کے اغوا کا واقعہ پیش آیا۔ اب پولیس اِس پہلو پر بھی تفتیش کر رہی ہے۔ عبداللہ پڑھائی کے ساتھ کسی مچھلی کی دکان پر کام کرتا تھا لیکن اُس کی دوستی امیر لڑکوں کے ساتھ تھی۔”
عبد اللہ کے اہل خانہ پہلے تواس بات کو رد کیا تاہم عمار اور دیگر دوست جو پولیس حراست میں ہیں ان پر عبداللہ کے اہل خانہ کا شک اس وقت یقین میں بدلا جب عبداللہ اور عمار کا ایک ساتھ جانا اور پھر ڈھونڈنے پر عمار کا ٹال مٹول سامنے آیا۔
عبداللہ ملک کے اہل خانہ کہتے ہیں کہ اُن کے بچے کو ایک طے شدہ منصوبے کے تحت اغوا کیا گیا ہے۔ عبداللہ کے گھر والے اِس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اُن کا بیٹا کسی قسم کا نشہ کرتا تھا یا اُس کی کسی خاتون کے ساتھ دوستی تھی۔
عبداللہ کے خالو ملک جاوید نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عبد اللہ کو عمار نامی شخص اپنے ایک دوست علی کے ساتھ اپنی قیمتی گاڑی میں اُن کے گھر سے باربی کیو پارٹی کا کہہ کر لاہور کے علاقے باٹا پور لے گیا تھا۔ پارٹی کے بعد عمار اپنے ساتھ ہی عبد اللہ کو اپنی فیکٹری ساتھ لے گیا اور وہاں جا کر اُسے مار دیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
عبداللہ کے خالو کے مطابق اُن کے بھانجے کو اغوا یا مارنے والے بہت امیر لوگ ہیں اور وہ ایک نامور رنگ و روغن بنانے والی کمپنی کے مالک ہیں۔
“انہوں نے پولیس کےساتھ ساز باز کی ہوئی ہے۔ پولیس اِس کیس میں کوئی تعاون نہیں کر رہی اور نہ ہی بچے کو بازیاب کرا رہی ہے۔ ہم اپنے بچے کی لاش ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئے ہیں۔ دو ہفتے ہو گئے ہیں ہمارے گھر والے میں رات دن پریشانی کے عالم میں رہتے ہیں۔ پولیس ہماری بات سن رہی ہے نہ حکومت ہماری کوئی مدد کر رہی ہے۔”
واضح رہے کہ آئس کے نشے کی وجہ سے یا منشیات کے حصول کے لیے لاہور میں قتل و غارت کے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں۔
تازہ ترین واقعہ فروری کے مہینے میں ہی لاہور کے علاقے شیرا کوٹ سے اغوا کے بعد قتل ہونے والے حافظ حمدان کا ہے۔ جو مقامی مسجد کے امام کا بیٹا تھا۔
حافظ حمدان کی لاش لاہور کے علاقے گلشن راوی میں ایک گندے نالے سے صندوق میں بند ملی تھی۔ اس پراسرار واقعے کی تفتیش کے لیے بھی جب مقتول کی دوستوں کو حراست میں لیا گیا تو انویسٹی گیشن پولیس کے مطابق ملزمان نے قتل کا اعتراف کرلیا اور وجہ آئس خریدنے کے لیے رقم حاصل کرنا بتائی۔
“حمدان کے پاس 45 ہزار روپے مالیت کا موبائل فون تھا اس کے دوست اویس، مقیت اور رانا عبداللہ وہ چھین کر آئس خریدنا چاہتے تھے۔ تمام ملزمان نے حال ہی میں آئس کا نشہ شروع کیا تھا اور ان سب کی عمریں 17 یا 18 سال کے لگ بھگ ہی ہیں۔”
لاہور میں آئس نشے کے باعث جرائم میں مبینہ طور پر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ رواں ماہ اب تک آئس نشے کے باعث دو ہلاکتیں رپورٹ ہو چکی ہیں۔ جب کہ لاہور پولیس کے پاس گزشتہ سال 25 سے زائد ہلاکتیں نشے کے باعث رپورٹ ہوئی تھیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
رواں سال اور گزشتہ سال قتل کی کئی وارداتوں کی کَڑیاں نشے کی خریدو فروخت یا اس کے استعمال سے جا ملتی ہیں۔
جوہر ٹاون لاہور ميں 2019 میں آئس کے نشے سے نوجوان حمزہ کي ہلاکت ہوئی تھی۔ مقدمہ درج ہونے کے باوجود ملزمان کے خلاف کارروائی نہ ہو سکی اور نہ ہی آئس نشے کی روک تھام کے لیے سنجیدہ اقدامات دیکھنے میں آئے۔
حمزہ کے چچا عبدالطیف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اُن کے محلہ میں 13، 14 سال کے بچے چھپ کر مختلف نشے کرتے ہیں۔ متعدد بار پولیس کو اطلاع دیتے ہیں کہ لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
“پولیس کو 15 پر کال کرتے ہیں تو پولیس آتی ہے اور ایسے لڑکوں کو پکڑ کر لے جاتی ہے لیکن کچھ دیر بعد ہی اُنہیں چھوڑ دیا جاتا ہے”۔
سال 2019 میں قتل کی کئی وارداتوں کی کڑیاں نشے کی خریدو فروخت یا اس کےاستعمال سے جاملتی ہیں۔
لاہور کے علاقے اقبال ٹاون میں فارمیسی پر واردات کے دوران احتشام نامی نوجوان کے قاتل بھی تفتيش ميں کرسٹل پاوڈر کے عادی نکلے۔ جنہوں نے واردات ہی نشے کي رقم کے ليے کی تھی۔
گزشتہ سال کراچی سے لاہور آنے والی ماڈل اقرا سعید کی موت بھی پولیس کے مطابق نشے کے باعث ہوئی جبکہ لاہور ہی میں لٹن روڈ پر بھائی کے ہاتھوں بہن اور بھتیجی کا قتل، ملت پارک میں منشیات فروش چچا کے ہاتھوں بھتيجے کی موت کے پیچھے بھی نشہ ہی بتایا جاتا ہے۔
ماہرین نفسیات کے مطابق زیادہ تر اسٹریٹ کرائمز اور جرائم کی بیشتر وارداتوں میں ملوث ملزمان آئس، ہیروئن یا چرس کے عادی ہوتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کریمنالوجسٹ عبداللہ عثمان نے بتایا کہ نشہ کی مقدار آہستہ آہستہ اِس کے استعمال کرنے والوں کے دماغ پر اثر کرنا شروع کر دیتی ہے۔ جس کے باعث وہ شدت پسندی پر بھی اُتر آتے ہیں۔
عبداللہ عثمان بتاتے ہیں کہ جب نشے کا استعمال کرنے والوں کو نشہ نہیں ملتا تو وہ رقم کے حصول کے لیے جرائم کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔
“ کوکین، ہیروئن اور آئس نشے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اِن منشیات کے استعمال سے لوگوں کا ذہنی توازن خراب ہو جاتا ہے۔ ایسے افراد کے دماغ میں کچھ کیمیکل غیر متوازن ہو جاتے ہیں جس وجہ سے وہ ذہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں اور اُس حالت میں وہ کوئی جرم کر لیتے ہیں”۔
لاہور پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) آپریشنز رائے بابر کہتے ہیں کہ وہ منشیات کی روک تھام کے لیے بنائے جانے والے ادارے اینٹی نارکوٹکس فورس کے ساتھ مل کر آئس اور دیگر منشیات کے خلاف کارروائی کرتے رہتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی آئی جی آپریشنز نے بتایا کہ رواں سال انہوں نے اینٹی نار کوٹکس فورس (اے این ایف) کے ساتھ مل کر متعدد کارروائیوں میں منشیات کی سپلائی کو روکا ہے اور اِنہیں فروخت کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی ہے۔
“گزشتہ سال ہم نے 500 سے زائد منشیات فروش گرفتار کیے تھے۔ اس سال بھی ہم اِس مکروہ دھندے کی روک تھام کے لیے اے این ایف کے ساتھ مل کر مزید اقدامات کر رہے ہیں۔ آئس، ہیروئن یا کوئی بھی نشہ اگر ایک دفعہ شہر میں پہنچ جائے تو وہ ایک ہزار لوگوں میں بالخصوص طلبہ میں تقسیم ہو سکتی ہے۔ جب تک کسی چیز کی سپلائی کو نہ روکا جائے تب تک اُس کی طلب نہیں رکتی۔ ہم اِن کی ترسیل اور تقسیم کار کو روکنے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں”۔
ماہرین کے مطابق نشہ جرائم پیشہ افراد کے ساتھ ساتھ نوجوانوں اور پڑھے لکھے افراد پر بھی اپنی اپنی گرفت مضبوط کرتا جا رہا ہے۔
لاہور کے ایس ایس پی کانسٹیبلری مفخر عدیل اور سابق اسسٹنٹ اٹارنی جنرل شہباز احمد تتلہ کو لاپتا ہوئے نو روز گزر گئے ہیں۔ پولیس تاحال ایس ایس پی اور اِن کے دوست کا سراغ نہیں لگا سکی ہے۔
ایک اعلیٰ پولیس افسر کے مطابق دونوں افراد نشے کے عادی تھے۔ پولیس اِس سلسلے میں اپنی تفتیش کر رہی ہے۔
پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال پنجاب ميں منشیات فروشی اور اس کے استعمال پر پانچ ہزار سے زائد مقدمات درج کر کے چھ ہزار ملزموں کو گرفتار کیا گیا۔ جن میں 20 غیر ملکی بھی شامل تھے۔