کراچی کے آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع ایک بڑی عمارت کے دیرینہ چوکیدار بابا رحیم گزشتہ پیر کو لاعلمی کے ہاتھوں کئی ماہ کینسر کی بیماری میں مبتلا رہنے کے بعد انتقال کرگئے۔
ان کے پوتے کے بقول ’’دادا نے مصنوعی بتیسی لگوائی تھی، رات کے وقت وہ بتیسی نکالتے اور اسے سرہانے رکھ کر سوجاتے تھے، صبح ایسے ہی اسے دوبارہ منہ میں لگا لیتے تھے جس سے ان کے منہ کو جراثیم لگ گئے ،ان کا منہ سڑ گیا اور علاج کرانے کے باوجود وہ اسی بیماری میں وہ ’اللہ کو پیارے‘ ہوگئے ۔‘‘
یہ وہ لاعلمی ہے جو پاکستان میں اورل کینسر یا منہ کے کینسر سے متعلق بہت ’عام ‘ہے۔ بابا رحیم کی موت کا بہانہ بتیسی بنا لیکن اصل میں انہیں تمباکو یا اس سے بنی نشہ آور چیزیں جیسے نسوار، گٹکا، پان، مین پوری، ماوا، سپاری، چھالیہ یا ایسی ہی دیگر چیزیں جنہیں ڈاکٹرز اور ماہرین صحت ’اسموک لیس ٹوبیکو ‘ کہتے ہیں، ان کے کھانے سے کینسر ہوگیا تھا جس پر سے پردہ ان کی زندگی کے بالکل آخری دنوں میں اٹھا۔
میڈیکل کی اصطلاح میں ’اسموک لیس ٹوبیکو ‘ ایسی مصنوعات جن سے دھواں خارج نہیں ہوتا۔ پاکستان میں لوگوں کی اکثریت ایسی مصنوعات روزانہ کھاتی ہے اور ان سے ہونے والے منہ، سر اور گردن کے کینسر سے واقف نہیں۔
کراچی میں چھالیہ کا استعمال سب سے زیادہ ہے جو کتھے کے ساتھ ملاکر کھائی جائے تو’دیسی گٹکا‘ کہلاتی ہے اور دبئی یا براہ راست بھارت سے اسمگل ہوکر آئے اور دلفریب رنگوں کے خوب صورت ساشوں میں ہو تو اسے’ گٹکا‘ کہا جاتا ہے ۔ یہ مختلف ناموں اور ’برانڈز‘ کی شکل میں آتا ہے ۔
حکومت کی جانب سے ملک بھر میں چھالیہ اور گٹکا بنانے، فروخت کرنے اور کھانے پر 2011ء سے پابندی عائد ہے لیکن ان قوانین کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ اب ان قوانین پر سختی سے عمل درآمد شروع ہوا ہے تو لوگوں کو ’پریشانی ‘محسوس ہو رہی ہے۔ نیوکراچی، گولیمار، بفرزون، شادمان ٹاؤن، نارتھ ناظم آباد، ناظم آباد، لیاقت آباد، گلبرگ، گلبائی، سائٹ، صدر اور شہر کے تمام اطرافی علاقوں اور گوٹھوں میں چھالیہ اور گٹکا مل تو رہا ہے لیکن منہ مانگی قیمت پر۔
گٹکا، مین پوری، ماوا، پان، سپاری بنانے کا اہم جز چھالیہ ہے۔ اس کی خریداری مرد، خواتین اور نوجوان دن کے اہم ترین کاموں کی طرح ہی ضروری سمجھتے ہیں۔ شہر میں نوجوانوں کی اکثریت ان چیزوں کو کھاتی ہے اور اس تواتر سے کھاتی ہے کہ ان کا منہ 24 گھنٹے میں شاید ہی کبھی خالی نظر آتا ہو ۔
کچھ ہفتوں پہلے چھالیہ کی قیمت ہزاروں تک پہنچی تو لوگوں کا حال یہ ہوگیا کہ انہوں نے مارکیٹ سے ’سپاریاں‘ خریدنا شروع کردیں کیوں کہ سپاریوں کے پیکٹ میں چھالیہ ہوتی ہیں۔ پہلے یہ ایک روپے میں چار آتی تھیں پھر ایک روپے میں دو ہوئیں، پھر دس روپے کی تین اور اب آٹھ روپے میں ایک سپاری فروخت ہو رہی ہے جس میں چھالیہ کے چند ہی دانے ہوتے ہیں۔ نمائندے نے مارکیٹ سروے کیا تو 20 مئی کو 48 ساشوں والے ایک پیکٹ کی قیمت 160 روپے تھی جبکہ کچھ مہینوں پہلے یہ آدھی سے بھی کم قیمت میں دستیاب تھا۔
قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے اس کے مطالبے میں کمی ہو جانی چاہئے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ لوگ میلوں پیدل چلتے ہوئے چھوٹی چھوٹی دکانوں کا پتہ پوچھتے اور چھالیہ کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ ان کے لئے نقصان سے زیادہ اپنی طلب مٹانا ضروری ہوتا ہے۔
کچھ دلچسپ اور منفرد پہلو
گٹکے کی تیاری اور فروخت کے لئے نیوکراچی کا علاقہ گودھرا کیمپ سارے شہر میں مشہور ہے ۔ وائس آف امریکہ کے نمائندے نے جب دو نوجوانوں عرفان اور عبدالقدیر سے گفتگو کی تو بہت سے دلچسپ اور حیرت انگیز پہلو سامنے آئے۔ مثلاً عرفان نے بتایا کہ وہ ’فائیو ڈی‘ میں رہنے والے ایک ایسے شخص کو بھی جانتے ہیں جو پچھلے پانچ ماہ میں چھالیہ بیچ بیچ کر کروڑ پتی بن گیا۔
بقول عرفان ’ اس آدمی کے پاس ایک ذاتی مکان تھا جو اس نے گزشتہ سال کے آخری مہینوں میں محض اس لئے فروخت کردیا کہ چھالیہ کے کاروبار میں بہت تیزی آنے لگی تھی۔ اس نے مکان58 لاکھ روپے میں بیچا اور اس رقم سے چھالیہ خرید لیں۔ اس وقت چھالیہ کا ریٹ 1100 روپے کلو تھا جو اپریل میں 2400 روپے ہوگیا۔ اس شخص نے ہر کلو پر 1300 روپے منافع کمایا۔ اس منافع کی بدولت آج وہ بیک وقت تین مکان خرید سکتا ہے۔‘
عرفان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ کوئی ایک مثال نہیں ہے بلکہ دسمبر 2017 سے اپریل 2018 تک کی درمیانی مدت میں بہت سے لوگ چھالیوں کے کاروبار میں راتوں رات لکھ پتی بن گئے۔
دوسرے نوجوان عبدالقدیر نے بتایا "چھالیہ کیا مہنگی ہوئیں اس سے بننے والی دوسری اشیاء بھی خودبخود مہنگی ہوتی چلی گئیں۔ آج مقامی طور پر بننے والے گٹکے کی ایک پڑیا کے دام 80 روپے ہیں جبکہ اپریل کے آخر تک یہی گٹکا 100 اور کہیں کہیں اس سے بھی زیادہ مہنگا فروخت ہو رہا تھا۔ بھارت سے ’پان پراگ،مانک چند، سٹی، گووا، بومبے، ومل‘ اور’ شملہ‘ جیسے درجنوں پان مصالحے اور گٹکے ان دنوں پاکستان میں’ ممنوع‘ ہیں ملتے ہی نہیں اس لئے مقامی سپاری، ماوہ، گٹکا ، چھالیہ یہاں تک کہ کھجور کی گٹھلیاں اور املی کے بیج بھی مہنگے ہوگئے۔ جونا مارکیٹ اور پان منڈی جیسے ہول سیل مارکیٹوں میں گٹھلیوں کے بورے بھرے پڑے ہیں مگر چھالیہ ’غائب ‘ہیں ۔"
انہوں نے مزید بتایا کہ "چھالیوں کے بحران‘ کی اصل وجہ یہ ہے کہ حکومت نے گٹکے کی تیاری کے خلاف قوانین پر سختی کے ساتھ عمل درآمد کرانا شروع کیا ہوا ہے، جتنی بھی چھالیہ بیرون ملک سے برآمد ہوئیں وہ سب کی سب کراچی بندرگاہ پر روک لی گئیں جبکہ شہر کے مختلف علاقوں میں پولیس نے چھاپے مارے اور کچھ لوگوں کو گرفتار بھی کیا۔"
چھالیہ کھانے کے نقصانات سے لاعلمی
وی او اے کے نمائندے نے ہر وقت چھالیہ کھانے کے عادی ایک نوجوان معیز سے چھالیہ کھانے کے نقصانات جاننے چاہے تو اس کا کہنا تھا "میں تو سادھی چھالیہ کھاتا ہوں، نقصان دہ چھالیہ تو تمباکو والی ہوتی ہیں۔"
گودھرا کیمپ کی رہائشی ایک ادھیڑ عمر خاتون نے اپنا نام بتائے بغیر وی او اے کو بتایا کہ "کون کہہ رہا ہے چھالیہ بکنا بند ہوگئیں؟ جس دن ایسا ہوا تو حکومت کا خود ’بھٹا‘ بیٹھ جائے گا۔ چھالیہ کی صرف امپورٹ سے ہی حکومت کو کروڑوں روپے کا فائدہ ہوتا ہے ۔ رہی نقصان کی بات تو آج کل گھی سبزی سے لیکر مصالحے اور گوشت تک کس چیز کے کھانے میں نقصان نہیں جو چھالیہ کھانا چھوڑیں۔"
اسی لاعلمی، لاپرواہی اور جان بوجھ کر نقصانات کو نظر انداز کرنے سے کینسر جیسا مرض بڑھ رہا ہے۔
آغا خان یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر جاوید خان نے وی او اے کو بتایا کہ 'اسموک لیس ٹوبیکو‘ کی اس قسم سے پیدا ہونے والے خطرات کو بڑی حد تک نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ بیشتر افراد کا خیال ہے کہ چھالیہ یا اس جیسی اسموک لیس ٹوبیکو بے ضرر اشیاء ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ سگریٹ اور دیگر نشہ آور چیزوں سے بھی کہیں زیادہ نقصان دہ ہیں۔ دنیا بھر میں 300 ملین سے زائد افراد کسی نہ کسی شکل میں بے دھواں تمباکو استعمال کرتے ہیں اور ان میں سے 85 فیصد افراد جنوبی ایشیائی ممالک مثلاً پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں آباد ہیں۔‘
ڈاکٹر جاوید خان کے مطابق تمباکو کا استعمال منہ کے کینسر کی بڑی اور بنیادی وجہ ہے۔ یہ پاکستان میں پائی جانے والی کینسر کی اقسام میں دوسرے نمبر پر ہےجبکہ اسموک لیس ٹوبیکو کا استعمال دل اور شریانوں کے امراض کی بھی وجہ بنتا ہے۔ یہ امراض دنیا بھر میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکرٹری ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا ہے کہ "گٹکا ، کیمیکل ملی چھالیہ اور مین پوری وغیرہ منہ کے کینسر، مسوڑوں، حلق، پھیپھڑوں، معدے اور پروسٹیٹ کینسر کا بنیادی سبب ہیں۔"