پاکستان میں قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے یا اس کو تحلیل کیے جانے کے بعد آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت دو سے تین ماہ کی مدت کے لیے صدر نگراں حکومت کے قیام کی منظوری دیتے ہیں۔ یہ نگراں حکومت نئے انتخابات کرانے کی ذمے دار اور نئی حکومت کی تشکیل تک ملکی امور چلانے کی مجاز ہوتی ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں 1990 سے اب تک سات نگراں حکومتیں تشکیل پا چکی ہیں جب کہ آئندہ چند روز میں آٹھویں نگراں حکومت قائم ہو گی۔
سال 2018 میں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی موجودہ قومی اسمبلی بدھ نو اگست 2023 کو تحلیل کر دی گئی۔ اب اسمبلی تحلیل ہونے پر صدر، وزیرِ اعظم اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف کی مشاورت سے نگران وزیرِ اعظم تعینات کریں گے۔
نگراں حکومت کے تقرر کے لیے اُن کے پاس اسمبلی کے تحلیل کے بعد تین دن کا وقت ہے۔ اگر قائدِ حزبِ اختلاف اور وزیراعظم کا کسی نام پر اتفاق نہیں ہوپاتا تو اس صورت میں یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس جائے گا جو آٹھ ارکان پر مشتمل ہو گی جس کے لیے وزیرِ اعظم اور اپوزیشن لیڈر اس کے لیے چار چار ارکان نامزد کریں گے اور کمیٹی کے سامنے دو دو نام بھی تجویز کریں گے۔
پارلیمانی کمیٹی کے پاس نگراں وزیر اعظم کا فیصلہ کرنے کے لیے تین دن ہوتے ہیں اور اگر یہ کمیٹی بھی تین دن کے اندر فیصلہ نہ کر سکے تو پھر یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس جاتا ہے۔
الیکشن کمیشن کو دو دن کے اندر اندر پارلیمانی کمیٹی کو تجویز کردہ ناموں میں سے نگراں وزیرِ اعظم کا اعلان کرنا ہو گا۔
پاکستان میں اب تک مقرر کیے گئے سات نگراں وزرائے اعظم کے حالاتِ زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
جسٹس (ر) ناصر الملک
جسٹس (ر) ناصر الملک یکم جون 18 اگست 2018 تک ملک کا انتظام سنبھالنے والی پاکستان کی ساتویں نگراں حکومت کے وزیرِ اعظم تھے۔
وہ 17 اگست 1950 کو سوات کے شہر مینگورہ میں پیدا ہوئے۔ یہیں کے ایک اسکول سے میٹرک کیا جب کہ گریجویشن کے لیے انہیں ایڈورڈز کالج پشاور جانا پڑا۔
انہوں نے 1977 میں لندن سے بار ایٹ لا کیا تھا اور ہ واپس پشاور آکر وکالت شروع کر دی تھی۔
وہ 1981 میں پشاور ہائی کورٹ بار کے سیکرٹری منتخب ہوئے جس کے بعد دو مرتبہ 1991 اور 1993 میں بار کے صدر رہے۔
انہیں چار جون 1994 کو پشاور ہائی کورٹ کا جج مقرر کیا گیا تھا جس کے بعد ترقی پا کر 31 مئی 2004 کو چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ بنائے گئے۔
انہیں پانچ اپریل 2005 کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔ جسٹس ناصر الملک نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں تین نومبر 2007 کے ایمرجنسی آرڈر کے کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد انہیں معزول کردیا گیا۔
تاہم ستمبر 2008 میں انہوں نے دوبارہ اپنے عہدے کا حلف لیا۔ وہ 16اگست 2015 تک سپریم کورٹ کے جج رہے۔
میر ہزار خان کھوسو
میر ہزار خان کھوسو کا تعلق بلوچستان کے ضلع جعفرآباد سے تھا۔
نگراں وزیرِ اعظم کے طور پر ان کا تقرر 25 مارچ 2013 کو عمل میں آیا اور پانچ جون 2013 کو وہ اپنے منصب سے سبکدوش ہوئے۔
وہ وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
بلوچستان یونیورسٹی میں پروفیسر رہنے کے ساتھ ساتھ پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے ان سے ان کے عہدے کا حلف لیا تھا۔
سال 2013 کے انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف ملک کے تیسرے وزیرِ اعظم بنے تو میر ہزار خان کھوسو کی نگراں حکومت کی مدت بھی ختم ہو گئی۔
محمد میاں سومرو
محمد میاں سومرو 16 نومبر 2007 سے 24 مارچ 2008 تک نگراں وزیراعظم رہے۔
محمد میاں سومرو ملک کے پانچویں نگراں وزیرِ اعظم تھے۔ انہوں نے چار ماہ اور آٹھ دن تک یہ فرائض نبھائے۔
محمد میاں سومرو پیشے کے اعتبار سے بینکر تھے۔ وہ 2003 سے 2009 تک سینیٹ کے چیئرمین بھی رہے۔
انہیں 25 نومبر 2000 کو اس وقت کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے سندھ کا گورنر بنایا تھا۔
انہیں شوکت عزیز کی وزارتِ اعظمیٰ کے خاتمے اور یوسف رضا گیلانی کے نئے وزیرِ اعظم بننے تک فرائض منصبی سونپے گئے تھے۔
محمد میاں سومرو 18 اگست 2008 کو سابق صدر پرویز مشرف کے استعفیٰ کے بعد آئینی طور پر 30 دن کے لیے صدر کے عہدے پر بھی فائز رہے جس کے بعد آصف علی زرداری نے منصبِ صدارت سنبھالا۔
12 اکتوبر 1999 کو جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھال کر کے آئین معطل کر دیا اور یوں قومی اور صوبائی اسمبلیاں بھی ختم ہو گئیں۔ پرویز مشرف نے 2002 کے عام انتخابات اپنی نگرانی میں کرائے اور اس وقت نگراں حکومت تشکیل نہیں دی گئی۔
ملک معراج خالد
ملک معراج خالد نے چھ نومبر 1996 سے 17 فروری 1997 تک بطور نگراں وزیرِ اعظم اپنے فرائض انجام دیے۔
وہ سابق صدر فاروق احمد خان لغاری کی جانب سے بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو برطرف کیے جانے پر نگراں وزیرِ اعظم مقرر ہوئے۔
فاروق لغاری پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور کارکن تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کی اور ملک معراج خالد کو نگراں وزیرِ اعظم مقرر کیا۔
معراج خالد کی زیرِ نگرانی عام انتخابات ہوئے جس کے بعد اقتدار کی باگ ڈور ایک مرتبہ پھر نواز شریف کے ہاتھوں میں آ گئی۔
معین الدین احمد قریشی
معین الدین احمد قریشی 18 جولائی 1993 کو نگراں وزیرِ اعظم بنے اور 19 اکتوبر 1993ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
نگراں وزیرِ اعظم بننے سے قبل طویل عرصے سے بیرونِ ملک رہنے کے باعث ان کے پاس قومی شناختی کارڈ تک نہیں تھا۔ لہٰذا انتخابات سے قبل ان کا قومی شناختی کارڈ بنوایا گیا جس کے بعد انہوں نے ووٹ ڈالا۔
معین قریشی نے نواز شریف کی پہلی حکومت کے خاتمے کے بعد نگراں وزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داری نبھائی۔
میر بلخ شیر مزاری
آئینی طور پر نگراں وزیرِ اعظم کی مدت تین ماہ یا 90 دن ہوتی ہے لیکن بلخ شیر مزاری ایسے واحد نگراں وزیرِ اعظم ہیں جنہوں نے صرف 39 دن تک بطور نگراں وزیرِ اعظم اپنے فرائض انجام دیے کیوں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف کی حکومت بحال ہونے کے بعد نگراں حکومت کالعدم ہوگئی تھی۔
وہ 18 اپریل 1993 سے 26 مئی 1993 تک ملک کے دوسرے نگراں وزیرِ اعظم رہے۔
غلام مصطفی جتوئی
غلام مصطفیٰ جتوئی ملک کے پہلے نگراں وزیرِ اعظم تھے۔ وہ چھ اگست 1990 کو صدر غلام اسحاق خان کی جانب سے بے نظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفی کے بعد تین ماہ کے لیے اس عہدے پر فائز کیے گئے تھے۔
ان کے عہدے کی مدت چھ اگست 1990 سے شروع ہو کر چھ نومبر 1990ء کو ختم ہوئی۔
ان کی حکومت نے نومبر 1990 میں عام انتخابات کرائے لیکن حسنِ اتفاق کہیے یا کچھ اور کہ وہ نواب شاہ میں اپنے ہی حلقے سے قومی اسمبلی کا انتخاب ہار گئے تھے۔