اسرائیل حماس جنگ کا ایک ماہ؛ ’تنازع کے فریقین کو امن پر اعتماد نہیں رہا‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل حماس جنگ نے تنازع کے پُرامن حل کے امکانات کو محدود کردیا ہے۔

اسرائیل پر حماس کے حملوں کو ایک ماہ مکمل ہو رہا ہے۔ ان حملوں کے بعد شروع ہونے والی جنگ نے فلسطینیوں اور اسرائیل دونوں کی زندگی کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔

گزشتہ ماہ سات اکتوبر کو حماس کے عسکریت پسندوں نے غزہ کی سرحد سے جنوبی اسرائیل میں بڑے پیمانے پر کارروائی کا آغاز کیا تھا جسے انہوں نے ’طوفان الاقصی‘ کا نام دیا تھا۔ ان حملوں میں 1400 افراد مارے گئے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ حماس کے اس حملے نے اسرائیل میں شدید خوف و ہراس پھیلایا۔

حماس کے حملوں کے بعد آنے والے تباہی کے مناظر کی وجہ سے اسرائیل میں ان واقعات کا موازنہ ہولوکاسٹ کے ہولناک حالات سے کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ حماس کے عسکریت پسندوں کی جانب سے 240 سے زائد افراد کو یرغمال بنانے کی وجہ سے اسرائیل کی سیاست اور عام شہریوں میں جذباتی سطح پر بے چینی پائی جاتی ہے۔

ہفتے کی شب حماس کے ہاتھوں یرغمال شہریوں کی رہائی کے لیے اسرائیل کے مختلف شہروں میں ریلیاں اور مظاہرے منعقد کیے گئے جن میں یرغمالیوں کے اہلِ خانہ سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ تل ابیب میں ہونے والے مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ یرغمالیوں کی بازیابی اسرائیلی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

دوسری جانب لگ بھگ 24 لاکھ آبادی رکھنے والا دنیا کا گنجان ترین علاقہ غزہ اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں کے باعث تباہ شدہ میدانِ جنگ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ اسرائیل غزہ سے حماس کے ٹھکانوں کے خاتمے کو اپنا ہدف قرار دیتا ہے۔

غزہ میں حماس کی انتظامیہ کے تحت کام کرنے والی وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ اب تک غزہ میں تقریباً ساڑھے نو ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں دو تہائی خواتین اور بچے شامل ہیں۔

فلسطینیوں کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اخبار روزنامہ ’القدس‘ کے مطابق’’غزہ ہزاروں بے گناہ افراد کے قبرستان میں تبدیل ہو چکا ہے۔‘‘

SEE ALSO: اسرائیلی کارروائی میں غزہ دو حصوں میں تقسیم، فوج کا شہر میں داخل ہونے کا امکان

بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی اخبار روزنامہ ’ہارٹیز‘ نے گزشتہ ہفتے لکھا کہ ’’اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں خود کو بیدار کرنا چاہیے کہ ہمارے آس پاس جو ہو رہا ہے وہ ایک نئی حقیقت ہے۔‘‘

روزنامہ ہارٹیز کے مطابق "جنگ نے جس صورتِ حال کی تشکیل کی ہے اس میں جانوں کا ضیاع اور نقصان ہے، بے چینی کی سطح ایسی ہے جس نے ملک کے ایجنڈے اور پرانی سیاسی روایات کے ہر پہلو کو بدل کر رکھ دیا ہے۔

’بارود کا ڈھیر‘

جنگ کا دورانیہ بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کا دائرہ خطے میں پھیلنے کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔ حماس اور لبنان میں حزب اللہ کا اتحادی ایران پہلے ہی خبردار کر چکا ہے کہ خطرات بڑھتے بڑھتے ’قابو سے باہر‘ ہو سکتے ہیں جن کے باعث مشرقِ وسطیٰ ’بارود کے ڈھیر‘ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔

امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگان کا کہنا ہے کہ امریکہ کو تشویش ہے کہ ایران کے نیٹ ورک کے حملے اس انداز میں بڑھ رہے ہیں کہ اس میں کسی بڑی غلطی کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے یا ان کے باعث پورے خطے میں جنگ چھڑ سکتی ہے۔

امریکہ کے فوجی مشیر اسرائیل میں موجود ہیں جب کہ امریکہ اسرائیل اور حماس کے درمیان شروع ہونے والی لڑائی کے کچھ روز بعد ہی اپنے دو طیارہ بردار بحری بیڑے مشرقی بحیرۂ روم میں تعینات کرچکا ہے۔

کشیدگی بڑھنے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی فوج لبنان کے ساتھ اپنی شمالی سرحد پر بھی الرٹ ہے۔

جمعے کو ایک ماہ تک خاموش رہنے کے بعد بالآخر اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ پر لبنانی ملیشیا حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے بھی اپنی خاموشی توڑی ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ لبنانی سرحد کے قریب اگر کشیدگی بڑھتی ہے تو ’تمام آپشن‘ کھلے ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں امریکہ کو جنگ کے لیے ذمے دار قرار دیا۔

خیال رہے کہ امریکہ نے حزب اللہ کو دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے۔

SEE ALSO: بلنکن کا مغربی کنارے کا غیر اعلانیہ دورہ، عرب رہنماؤں کا غزہ میں جنگ بندی پر زور

برطانوی خبر رساں ادارے 'بی بی سی' سے بات کرتے ہوئے پینٹاگان کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل پیٹرک ریڈر کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں لبنان اسرائیل سرحد پر تنازع کے خطرات کو روک لیا گیا ہے اور حزب اللہ جنگ کا حصہ نہیں بنے گی۔

تاہم مشرقِ وسطیٰ کے اسرائیلی ماہر آوئی میلامند کا کہنا ہے: ’’حزب اللہ خطے کو جنگ میں جھونک سکتی ہے۔‘‘

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حزب اللہ کے پاس حماس سے زیادہ عسکری صلاحیت ہے جس کے ذریعے وہ اسرائیل کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔

غزہ میں جاری جنگ کی وجہ سے اسرائیل کے زیرِ کنٹرول مغربی کنارے میں بھی کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ اسرائیل نے اس علاقے پر 1967 کی جنگ کے بعد قبضہ کیا تھا۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ مغربی کنارے میں پیدا ہونے والی صورتِ حال سے مقابلے کے لیے تیار ہے۔

سفارتی کوششوں میں اضافہ

اسرائیل حماس جنگ کے ایک ماہ مکمل ہونے کے قریب امریکہ نے بھی اس بحران کو بڑھنے سے روکنے کے لیے اپنی سفارتی کوششیں تیز کردی ہیں۔

اختتام ہفتہ پر امریکہ کے وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن نے مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک کا دورہ کیا۔ یہ دورے غزہ میں جاری جنگ کے دوران امداد کی فراہمی اور اور شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوششوں کا حصہ تھے۔

بلنکن نے اردن، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر، عراق، قطر، ترکیہ اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔

SEE ALSO: اسرائیل حماس جنگ؛ کیا صدر ایردوان اسرائیل سے متعلق ’محتاط‘ ہیں؟

اینٹںی بلنکن کے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے ملاقات کے لیے پہنچنے پر مغربی کنارے میں فلسطینیوں نے احتجاج بھی کیا۔

محمود عباس کے ترجمان کے مطابق محمود عباس نے امریکی وزیرِ خارجہ پر غزہ میں امداد کی فراہمی اور جنگ بندی کرانے کے لیے زور دیا۔

سفارتی رابطوں کے دوران غزہ میں جنگ بندی کے مطالبات کے بارے میں بلنکن نے کہا کہ اس وقت ایسا کرنا نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو گا۔ انہوں نے اشارہ کیا کہ وہ انسانی امداد کی فراہمی اور شہریوں کو غزہ سے باہر نکالنے کے لیے وقفے کی حمایت کر سکتے ہیں۔

بلنکن نے کہا کہ اگر اس وقت جنگ بندی ہوتی ہے تو حماس برقرار رہے گی۔ وہ دوبارہ گروپ بندی کرنے کے قابل ہو گی اور سات اکتوبر جیسے حملے کو دہرائے گی۔

جنگ بندی کے حق میں مظاہرے

امریکہ کے نیشنل پبلک ریڈیو (این پی آر) کی ایک رپورٹ کے مطابق حماس کے حملوں نے اسرائیل سمیت دنیا کو شدید صدمے سے دو چار کیا۔ تاہم اب اسرائیل کی جوابی کارروائیوں میں آنے والی شدت پر بھی کئی حلقے تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔

اتوار کو اسرائیل نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ چار ہفتوں کے دوران غزہ میں اس کی فضائی، زمینی اور بحری راستوں سے کی گئی کارروائیوں میں اس نے 25 سو سے زائد ’دہشت گردوں کے اہداف‘ کو نشانہ بنایا ہے۔

اسرائیلی دفاعی فورسز (آئی ڈی ایف) کا کہنا ہے کہ وہ صرف ان عمارتوں کو نشانہ بنا رہی ہیں جہاں حماس کے جنگجو ہوتے ہیں یا زیرِ زمین حماس کی سرنگوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔

اختتامِ ہفتہ پر دنیا بھر میں غزہ میں جنگ بندی کی حمایت میں کئی متعدد مظاہرے بھی ہوئے۔ جنگ شروع ہونے کے بعد ہفتے کو واشنگٹن ڈی سی میں بھی فلسطینی کی حمایت میں ایک بڑا مظاہرہ ہوا۔

SEE ALSO: 'غزہ کو جینے دو': امریکہ میں فلسطینیوں کی حمایت کے لئے مظاہرے

امریکہ میں بائیڈن حکومت کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے حقِ دفاع کی حمایت جاری رکھی جائے گی۔

'این پی آر' کے مطابق امریکی دارالحکومت میں بھی غزہ میں بڑھتے جانی و مالی نقصان پر تشویش بڑھ رہی ہے تاہم ابھی تک چند ہی قانون سازوں نے عوامی سطح پر لڑائی روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔

گزشتہ ہفتے ڈیمو کریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے 18 ارکان نے بھی جنگ بندی کے حق میں تیار کی گئی ایک قرار داد پر دستخط کیے تھے۔

’امن پر اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے‘

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اسرائیل کی فوجی اور انٹیلی جینس کی صلاحیتوں کو دنیا میں بہتری قرار دیا جاتا ہے تاہم سات اکتوبر کو حماس کے حملوں نے اس ساکھ کو متاثر کیا ہے۔

اسرائیلی ریزرو فوج کی ایک لیفٹننٹ کرنل اور تین بچوں کی ماں سارت زہاوی کا کہنا ہے کہ وہ رات کو سو نہیں پاتیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ حزب اللہ حماس کی نقل کرتے ہوئے شمال میں ’قتلِ عام‘ کر سکتی ہے۔

اے ایف پی کے سے بات کرتے ہوئے 1948 میں اسرائیل کے قیام کا دور دیکھنے والے غزہ کے 80 سالہ مکین عمر عاشور کا کہنا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ بہت خطرناک ہے۔

ان کے بقول جو کچھ ہو رہا اس سے ’دوسرے نقبہ‘ کے حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔

فلسطینی اسرائیل کے قیام کے وقت جنگ کے باعث ہونے والی نقل مکانی کو نقبہ یا تباہی قرار دیتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق 1948 میں پہلی عرب اسرائیل جنگ کے دوران سات لاکھ 60 ہزار فلسطینیوں نے نقل مکانی کی تھی۔

Your browser doesn’t support HTML5

'والد کو چھوڑ کر آنا پڑا، غزہ چھوڑنا نہیں چاہتی تھی'

وزیرِ اعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے مطالبات دراصل حماس کے سامنے شکست تسلیم کرنے کے مترادف ہیں۔

واضح رہے کہ اسرائیل، مصر، امریکہ اور اس کے کئی اتحادی فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کو دہشت گرد قرار دے چکے ہیں۔

حماس کے ترجمان ابو عبیدہ اپنے بیان میں کہتے ہیں کہ غزہ دشمن کے لیے 'دلدل' اور 'قبرستان' ثابت ہوگا۔

یروشلم کی ہیبریو یونیورسٹی کے سابق ڈین کلاڈ کلین کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں کسی پُرامن تصفیے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان کے بقول، میں مستقبل میں کوئی مثبت آثار نہیں دیکھ رہا۔

کلاڈ کلین کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر کو جو کچھ ہوا اس نے اسرائیل میں ان لوگوں کو مضبوط کیا ہے جن کے نزدیک امن کی گنجائش نہیں رہی ہے۔

مغربی کنارے کی بیر زیت یونیورسٹی کے استاد اور سابق فلسطینی وزیر غسان خطیب کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات نے تنازع کے فریقین میں شدت پسندی کی حوصلہ افزائی کی ہے اور اس کے نتیجے میں تنازع کے پُر امن حل پر اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچی ہے۔

اس رپورٹ میں شامل بعض معلومات فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔