پینٹاگون نے اپنی حالیہ رپورٹ پیش گوئی کی ہے کہ چین آئندہ 10 برس میں اپنے ایٹمی ہتھیار تقریباً دوگنا کر لے گا۔
کانگریس کے لیے منگل کو جاری ہونے والی پینٹاگون کی 'چین کی فوجی طاقت' پر مبنی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین اپنی فوجی طاقت 2049 تک امریکہ کے برابر یا اس سے بہتر بنانے کا منصوبہ رکھتا ہے تاکہ وہ خطے میں سب سے بڑی طاقت بن سکے۔
رپورٹ کے مطابق اس وقت چین کے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد 200 سے زائد ہے جو ایسے بیلیسٹک میزائلز میں نصب ہو سکتے ہیں جن کی رینج امریکہ تک ہے۔
امریکی محکمہ دفاع کے ڈپٹی سیکریٹری چاڈ سبراجیا نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ پینٹاگون نے رپورٹ میں چین کے ایٹمی ہتھیاروں کی درست تعداد ظاہر کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس تعداد اور چین کی ایٹمی صلاحیت کو بڑھانے کے معاملات کو سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔
خیال رہے کہ امریکہ کے پاس اس وقت 3800 سے زائد ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ یہ چین کی ایٹمی صلاحیت سے کہیں زیادہ ہے۔
امریکہ کے پاس ان ایٹمی ہتھیاروں کو ہدف تک پہنچانے کے لیے آبدوزیں، جہاز اور بین البراعظمی بیلسٹک میزائل موجود ہیں۔
چین اس وقت ہوا سے ایٹمی ہتھیاروں کو بھیجنے کی صلاحیت سے محروم ہے مگر پینٹاگون کی رپورٹ کے مطابق چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے گزشتہ برس ہوا سے ہوا میں مار کرنے والے ایٹمی جنگی طیارے کی نمائش کی تھی۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں چین نے 12 آبدوزیں بنائی ہیں جن میں سے 6 ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ سفر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئندہ دہائی کے وسط تک چین ایک اور آبدوز بنانے میں کامیاب ہو جائے گا جو گائیڈڈ میزائلوں سے لیس ہوگی۔ یہ آبدوز اگر زمین سے مار کرنے والے کروز میزائلوں سے لیس کی گئی تو خفیہ طور پر اس سے زمینی حملے کا بھی کام لیا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ چین امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایٹمی اسلحے کو محدود کرنے کے امریکہ اور روس کے معاہدے میں شمولیت کی دعوت سے انکار کر چکا ہے۔
اگر چین نے اس معاہدے میں شمولیت نہ کی تو امریکہ معاہدے کی مدت فروری 2021 کے بعد مزید نہ بڑھانے پر مجبور ہو گا۔
گزشتہ ہفتے امریکی سیکریٹری دفاع مارک ایسپر نے خبردار کیا تھا کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا نے جو آزاد اور شفاف نظام قائم کیا تھا۔ وہ چین کے انڈو پیسیفک خطے میں روایات توڑنے والے رویے سے خطرے سے دوچار ہے۔
انہوں نے خطے کو عالمی طاقتوں کے مابین مسابقت کا گڑھ قرار دیا۔ مارک ایسپر نے اس بات کا اعادہ کیا کہ چین جیسے ممالک، جو بین الاقوامی آزادی کے لیے خطرہ ہیں، ان کے لیے ایک انچ جگہ بھی نہیں چھوڑی جائے گی۔
دوسری جانب ایک امریکی دفاعی افسر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پچھلے ہفتے چینی فوج کی مشقوں کے دوران چین نے چار درمیانی فاصلے پر مار کرنے والے بیلسٹک میزائل بحیرہ جنوبی چین کے متنازع پانیوں میں فائر کیے۔
پینٹاگون نے اس پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ چین کے اقدامات اس کے اس وعدے کے برخلاف ہیں کہ بحیرہ جنوبی چین میں فوجی کشمکش میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ یہ امریکہ کے آزاد انڈو پیسیفک خطے کے وژن کے بھی خلاف ہے جس کے تحت اس خطے میں چھوٹے بڑے تمام ممالک آزاد ہو کر بین الاقوامی قوانین کے تحت معاشی ترقی کا حصول کر سکیں۔