|
حماس کے عسکریت پسندوں نے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل کے جنوبی حصے پر ایک بڑا حملہ کیا تھا جس میں 1200 افراد ہلاک ہوئے اور 250 کے لگ بھگ اسرائیلیوں کو جنگجو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ حملے کے ایک سال کے بعد زندہ بچ جانے والوں کی آنکھوں میں اس دن کے خوف ناک منظر تازہ ہیں۔
جنوبی اسرائیل کے ایک قصبے کی لیکاک الموج کا عسکریت پسندوں کے قبضے میں جانے والے پولیس اسٹیشن کے کھنڈرات اور گولیوں کے نشانات سے اٹی عمارتوں کے پاس سے گزر ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہر کونہ یادگار بن گیا ہے۔اگر آپ کچھ بھولنا بھی چاہیں تو نہیں بھول سکتے۔جب آپ کی نظر باہر دیوار پر پڑتی ہے تو وہ آپ کو سب کچھ بار بار یاد دلاتی ہے۔
الموج اسرائیل حماس جنگ میں بے گھر ہونے والے ان ایک لاکھ 20 اسرائیلیوں میں شامل ہیں جو اپنے گھروں میں لوٹ آئے ہیں اور 7 اکتوبر کے حملے کی یادوں میں گھر گئے ہیں۔
انہیں وہ سب یاد آ رہا تھا جب حماس کے عسکریت پسند سرحد پار کر کے ان کے قصبے میں گھس آئے تھے، انہیں جان بچانے کے لیے اپنے محفوظ کمروں میں ، بنکروں میں اور درختوں میں چھپنا پڑا تھا۔ اپنے پیاروں کو کھونے کا غم زندہ بچ جانے والوں کے لیے احساس جرم جیسا بن گیا۔
سدیروت کی 37 سالہ لیکاک الموج نے کیا دیکھا
سدیروت کی 37 سالہ لیلاک الموج کی اپارٹمٹ بلڈنگ کے سامنے 7 اکتوبر ہو پولیس اسٹیشن میں ہونے والا دھماکے نے انہیں دہلا کر رکھ دیا اور سائرن کی گونجتی ہوئی آوازوں میں جب وہ اپنے گھر کے محفوظ کمرے کی طرف بھاگ رہی تھیں تو انہوں نے کھڑکی سے گلی میں درجنوں مسلح افراد کو دیکھا جن کے کندھوں پر گرینیڈ داغے والے راکٹ تھے۔
حملہ آوروں نے پولیس اسٹیشن پر قبضہ کر لیا اور اسرائیلی فوج نے عمارت کو اڑا دیا۔ اس لڑائی میں پولیس کے اہل کاروں سمیت 30 سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔الموج جان بچانے کے لیے اپنے بچوں اور ماں کے ساتھ بھاگ کر تل ابیب چلی گئی تھی جہاں وہ آٹھ مہینے تک ایک ہوٹل میں رہے اور جب اگست میں حکومتی امداد ختم ہو گئی تو انہیں سدیروت لوٹنا پڑا۔
حماس کے حملے کے بعد شروع ہونے والی غزہ جنگ میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک 41 ہزار سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں جس میں ان کے بقول اکثریت بچوں اور عورتوں کی ہے۔ تاہم غزہ کی وزارت صحت یہ نہیں بتاتی کہ ہلاک ہونے والوں میں جنگجو کتنے تھے۔
الموج پر، جو ایک آرکیٹکٹ اور انٹیرئیر ڈیزائنر ہیں، پریشانیوں نے اتنا گہرا اثر ڈالا ہے کہ انہوں نے اپنی ملازمت چھوڑ کر معذوری کی چھٹی لے لی ہے۔ ان کا 9 سالہ بیٹا اتنا خوف زدہ ہے کہ بستر پر ہی پیشاب کر دیتا ہے اور 11 سالہ بیٹی ڈر کے مارے ماں کے بغیر باہر نہیں نکلتی۔
الموج کہتی ہیں کہ جب تک جنگ جاری ہے ہمارے پاس پرسکون زندگیوں میں واپس آنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ ہمارے یرغمال اب بھی ان کے پاس ہیں اور ہمیں اب بھی ڈراونے خواب آتے ہیں۔
زیف عبود، نوا میوزک فیسٹول اور یرغمال ایلیا کوہن
جب نووا میوزک فیسٹول پر حملہ ہوا تو زیف عبود نے راکٹ حملوں سے بچنے کے لیے سڑک کے کنارے ایک بنکر میں پناہ لی۔ کنکریٹ کے اس بنکر میں دس لوگوں کی گنجائش تھی جب کہ وہاں تقریباً 30 افراد گھس گئے تھے۔
عسکریت پسندوں نے بنکر میں دستی بم پھینکے۔ عبود نے بتایا کہ ایک سابق فوجی نے 8 دستی بم واپس باہر پھینک دیے جب کہ 9 بم پھٹ گیا جس سے بنکر میں موجود لگ بھگ آدھے لوگ ہلاک ہوگئے۔ بم پھٹنے سے بنکر میں دھواں اور افراتفری پھیل گئی۔ اس دوران عسکریت پسندوں نے کئی لوگوں کو پکڑ لیا اور پناہ گاہ پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔
اس حملے میں عبود محفوظ رہیں۔ جب ان کے حواس بحال ہوئے تو انہیں اپنے بھتیجے اور اس کی گرل فرینڈ کی لاشیں نظر آئیں، لیکن اپنے بوائے فرینڈ ایلیا کوہین کا کچھ پتہ نہ چلا۔عسکریت پسند ایک اسرائیلی نژاد امریکی ہرش لولڈ برگ پولن سمیت چار افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔عبود نے سال بھر کے دوران یرغمالوں کی رہائی اور کوہن کی واپسی کے لیے بھرپور مہم چلائی ہے اور دنیا بھر کا سفر کیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ میں اپنے دکھوں کے بارے میں کم ہی سوچتی ہوں ۔ میرے ذہن میں بس یہی رہتا ہے کہ ایلیا کوہن کو واپس کیسے لایا جائے۔
کیبوتز نیر عوز کے 86 سالہ شلومو مارگیلٹ، 79 سالہ ہنالی مارگیلٹ پر کیا گزری
کیبوتر نیر عوز کے تقریباً 400 رہائشیوں میں سے 42 کو عسکریت پسندوں نے ہلاک اور 75 کو یرغمال بنا لیا تھا۔ شلومو مارگیلٹ اور ہنالی مارگیلٹ اب بھی یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ کیسے بچ گئے تھے۔ان کے گھر کے اطراف کے تمام مکینوں کو عسکریت پسندوں نے ہلاک کر دیا تھا۔ وہ ان کے گھر میں بھی آئے لیکن اس کمرے میں نہیں گئے جہاں وہ دونوں چھپے ہوئے تھے۔
مارگیلٹ کی شادی کو 64 سال ہو چکے ہیں اوران کی عمر کا زیادہ تر حصہ نیرعوز میں گزرا ہے۔ انہوں ے اس بنجرریگستان کو بلندو بالا درختوں اور سرسبز گاؤں میں تبدیل کرنے کے لیے عمر بھر کام کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا گاؤں تباہ ہو چکا ہے جسے دوبارہ تعمیر کرنے میں اب برسوں لگیں گے۔
اب یہ جوڑا نیرعوز کے دوسرے مکینوں کی طرح شمال مشرق میں ایک گھنٹے کی ڈرائیو کے فاصلے پر ایک عارضی ہاؤسنگ سکیم میں رہ رہا ہے۔شلومو مارگیلٹ ہفتے میں ایک بار اپنے تباہ حال گاؤں میں قبرستان کی دیکھ بھال کے لیے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب وہاں کئی نئی قبروں کا اضافہ ہو چکا ہے۔ وہ ہر بار ان میں سے کسی ایک شخص کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر گاؤں میں اس کے تباہ شدہ مکان میں جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جانے و الوں کو الوداع کرنے کا یہ ایک طریقہ ہے۔
نووا فیسٹول میں زندہ بچ جانے والی 47 سالہ ایلات شالیف کیا سوچتی ہیں
ایلات کو یاد ہے کہ جب 7 اکتوبر کا سانحہ ہوا تو اس کے چند روز بعد پومیلو کا پھل اتارا جانے والا تھا۔ پومیلو بڑے لیموں جیسا ایک علاقائی پھل ہے۔کسانوں نے ان کے لیے بڑے بڑے ڈبے تیار کر کے رکھ دیے تھے۔
جس وقت عسکریت پسندوں نے حملہ کیا تو وہاں نووا کا میوزک فیسٹول ہو رہا تھا اور ایلات اپنے شوہر کے ساتھ رقص کر رہی تھیں۔جب عسکریت پسندوں کی فائرنگ شروع ہوئی تو ایلات اپنی جان بچانے کے لیے پومیلو کے باغ میں بھاگ گئیں۔
وہ کہتی ہیں کہ میں ایک درخت کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی۔ ایک گولی میرے سر کے انتہائی قریب سے گزر گئی۔میں نے دعا کی کہ خدا مجھے اپنے بچوں کے لیے زندہ رکھے۔ان کے چار بچے ہیں جن کی عمریں 12 سے 23 سال کے درمیان ہیں۔ عسکریت پسندوں کے حملے نے ایلات سے ان کا شوہر چھین لیاہے۔ وہ حملے کے بعد لاپتہ ہو گئے تھے جسے پولیس نے پانچ دن کے بعد مردہ قرار دے دیا تھا۔
کیبوتز نیرعوز کی 50 سالہ یرغمال لیات اتزیلی کہتی ہیں کہ ہمیں ساتھ ہی رہنا ہے
لیات ایزیلی کو عسکریت پسند پکڑ کر اپنے ساتھ غزہ لے گئےتھے۔ 54 دن کی قید کے بعد انہیں رہائی مل گئی اور وہ ایک ٹیچر کے طور پر اپنے کام پر واپس آ گئیں۔
وہ کہتی ہیں کہ میں خود کو خوش قسمت سمجھتی ہوں کیونکہ مجھے دوسرے یرغمالوں کی طرح زیر زمین سرنگوں کی بجائے ایک اپارٹمنٹ میں قید رکھا گیا تھا۔لیکن قید کے دوران انہیں مسلسل یہ فکر رہی کہ ان کا خاندان زندہ بچا بھی ہے یا نہیں۔
نومبر میں جنگ بندی کے معاہدے کے ایک حصے کے طور پر اس کی رہائی کے اگلے دن، اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ اس کے شوہر ابیب کو قتل کر دیا گیا ہے اور اس کی لاش غزہ میں رکھی گئی ہے۔ اس کے تین بچوں میں سے دو کبٹز پر تھے، اور دونوں بچ گئے۔
اتزیلی کی رہائی نومبر میں عارضی جنگ بندی کے ایک معاہدے میں فلسطینی قیدیوں کے ساتھ یرغمالوں کے تبادلے میں ہوئی تھی۔ ان کے شوہر کے بارے میں اسرائیلی فوج نے بتایا تھا کہ وہ قتل کر دیے گئے تھے اور ان کی لاش غزہ میں ہے۔ان کے تین میں سے دو بچے کیبوتز میں تھے اور وہ زندہ بچ گئے تھے۔
اتزیلی کی سالگرہ آنے والی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ ایک مشکل موقع ہے کہ اس ایک سال کے دوران ہم نے کتنا کچھ کھو دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہودی یہ چاہتے ہیں کہ فلسطینی اس علاقے سے غائب ہو جائیں جب کہ فلسطینیوں کی بھی یہ خواہش ہے کہ یہودی اس سرزمین پر نہ رہیں۔لیکن ایسا نہیں ہونے والا۔ کوئی بھی کہیں نہیں جا رہا۔ ہمیں ایک دوسرے سے پیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن ہمیں ایک ساتھ چلنا ہے۔ ہمیں ایک ایسا راستہ تلاش کرنا ہے جس پر چل کر ہر کوئی محفوظ رہ سکے۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)