|
کراچی -- پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان نے چین کو توانائی کے شعبے میں واجب الادا قرضے چینی کرنسی یعنی رینمن بائی میں واپسی کی تجویز دی ہے۔
اگرچہ اس تجویز پر ابھی چینی حکومت سے جواب آنا باقی ہے تاہم بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس پر عمل کیا جاتا ہے تو پاکستان کو جہاں ادائیگی میں آسانی ہو گی وہیں چین کو اپنی کرنسی بین الاقوامی تجارت میں اہم بنانے میں بھی مدد ملے گی۔
لیکن کئی ماہرین کے خیال میں چین کی جانب سے ایسی کسی تجویز سے اتفاق کرنا آسان نظر نہیں آتا۔
وزیر خزانہ نے کیا بتایا ہے؟
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا کہ حکومت نے چین سے اس ضمن میں توانائی کے قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کے بجائے ری پروفائلنگ کی بھی تجویز دی ہے۔
خیال رہے کہ ری پروفائلنگ کے تحت قرضوں کی واپسی کی میعاد بڑھائی جا سکتی ہے۔ جب کہ ری اسٹرکچرنگ میں قرضوں کا حجم کم کرنے کی درخواست کی جاتی ہے اور عام طور پر یہ وہ ممالک کرتے ہیں جو ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ چینی انتظامیہ اصولی طور پر اس بات سے اتفاق کرتی دکھائی دیتی ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنا ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈالر کے مقابلے میں چینی کرنسی میں ادائیگی سے پاکستان کو کافی مدد مل سکتی ہے۔ چینی حکومت کا اس پر مثبت ردِعمل ہے۔ لیکن وہ اس حوالے سے اس وقت زیادہ تفصیلات بیان نہیں کر سکتے۔
تاہم انہوں نے واضح کیا کہ حکومت چاہتی ہے کہ مسئلے کا ایسا حل تلاش کیا جائے جس میں فریقین کا کوئی نقصان نہ ہو۔
وزیر خزانہ کے بقول اگر ہم نے بجلی کی طلب کو بڑھانا ہے تو اس کے لیے آئی پی پیز کے بھی حق میں یہ بات جاتی ہے کہ تاکہ ڈیمانڈ کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔
پاکستان نے اس سال کے وسط میں چینی حکومت کے ساتھ توانائی کے شعبے میں حاصل کردہ تقریباً 16 ارب ڈالر کے قرضے واپس کرنے سے متعلق بات چیت کا آغاز کیا تھا۔
یہ قرضہ توانائی کے ان ایک درجن سے زائد منصوبوں کے لیے حاصل کیا گیا تھا جو سی پیک کے تحت لگائے گئے تھے۔ ان میں سے سات کے قریب منصوبے ابھی تکمیل کے مراحل میں بھی ہیں۔
ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ پاکستان اس وقت ڈالر کی کمی کا شکار ہے اور اس قدر بڑی رقم ادا کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
دوسری جانب پاکستان حال ہی میں آئی ایم ایف کے 37 ماہ پر مشتمل نئے قرض پروگرام میں بھی شامل ہوا ہے جس کے تحت پاکستان کو اقساط میں سات ارب ڈالر کا قرضہ ملے گا۔
ادھر وزیر توانائی سردار اویس لغاری نے وائس آف امریکہ کو دیے دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ چاہے مقامی آئی پی پیز ہیں ہوں یا غیر ملکی، ان کے ساتھ باہمی رضامندی سے معاہدوں پر نظرِ ثانی کی جا رہی ہے۔
'چینی کرنسی میں ادائیگی کے لیے رضامندی حاصل کرنا آسان نہیں'
کراچی میں مقیم توانائی امور کے ماہر راؤ عامر کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے چینی آئی پی پیز کو چینی کرنسی میں ادائیگی کے لیے راضی کرنا اس قدر آسان نہیں ہے۔
اس تجویز پر عمل درآمد کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ چین نے اس سے قبل پی ٹی آئی کے دور حکومت میں بھی ایسی تجاویز کو مسترد کر دیا تھا بلکہ وہ اس قرضے کی واپسی کے لیے مدت کو بڑھانے کے لیے بھی تیار نہیں تھے اور وہ اس حوالے سے پہلے سے طے شدہ معاہدوں پر عمل درآمد پر ہی بضد ہیں۔
راؤ عامر کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر پاکستان چین کو ناراض بھی نہیں کر سکتا۔ پاکستان اس معاملے پر چینی حکومت سے مذاکرات تو کر رہا ہے۔ لیکن اس پر قائل کرنا اتنا آسان نہیں ہے اور انہیں چینی آئی پی پیز کی ادائیگی میں پاکستان کے لیے آسانیوں کا فی الحال کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صارف کا بجلی کا بل اس وقت تک کم نہیں ہو سکتا جب تک سی پیک کے تحت لگائے گئے پاور پلانٹس سے معاہدے دوبارہ نہیں ہوتے اور ان کی کپییسٹی پیمنٹس کم نہیں کی جاتیں۔
ان کے خیال میں اس وقت بات چیت کی جو مشق کی جارہی ہے اس کا مقصد حکومت اپنی فیس سیونگ چاہتی ہے۔ حکومت چاہتی تو ہے کہ بجلی کا ٹیرف کم کرے۔ لیکن چاہنے اور کرنے میں کافی فرق ہے اور ایسا ہونا مشکل یوں دکھائی دیتا ہے کہ حکومت کے پاس ایسی سبسڈیز دینے کے لیے اب اسپیس نہیں بچا۔
'چین کی جانب سے اب تک اس ضمن میں مثبت اشارے دیے گئے ہیں'
ماہر معاشیات اور توانائی امور کے ماہر عمار حبیب خان کا کہنا ہے کہ انہیں بہت زیادہ امید ہے کہ پاکستان اور چین اس بارے میں جلد اتفاق رائے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس سے پاکستان کو فائدہ ہو گا اور اب تک اس بارے میں مثبت اشارے ہی ملے ہیں۔
عمار حبیب خان کے مطابق چینی قرضوں پر مذاکرات میں اس لیے وقت لگ رہا ہے کیوں کہ یہ کافی پیچیدہ معاملات ہوتے ہیں اور ان کی اطلاعات کے مطابق اس میں کافی پیش رفت ہو چکی ہے۔ بجلی کے پاور پلانٹس لگانے پر آنے والے قرضوں کی ادائیگی کا بجلی کے بلوں میں اوسط حصہ پانچ روپے 33 پیسے ہے۔ اگر یہ قرض مینج کر لیا جائے تو اس میں بجلی کے بلوں میں فرق تو پڑ سکتا ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب یہ معاہدے گزشتہ دہائی میں کیے جا رہے تھے تو اس وقت ایک امریکی ڈالر 105 روپے کے اردگرد تھا جو اب 280 روپے کا ہو چکا ہے یعنی بجلی کی قیمت پاکستانی روپوں میں تقریبا تین گنا بڑھ چکی ہے اور پاکستانی روپے کی قدر گرنے اور دوسری جانب قوت خرید نہ بڑھنے کے باعث عوام کے لیے بجلی کے بل دینا مشکل ہو چکا ہے۔
فورم