کراچی کے سب سے نامور بزرگ حضرت عبداللہ شاہ غازی کے 1280 ویں عرس کی سہ روزہ تقریبات آج ختم ہو گئیں ۔ ان بارہ سو اسی سالوں میں غالباً یہ پہلا عرس تھا جب تینوں دن ،مزار کے اطراف ہی نہیں مزار سے ایک کلومیٹر قبل سے ہی سیکورٹی کے نہایت سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ ان سخت انتظامات کی وجہ وہ حالیہ خودکش بم دھماکے بھی ہیں جن میں درجن بھرسے زائد لوگ جاں بحق اور زخمی ہوگئے تھے۔
عرس کے موقع کی تصاویر۔۔ یہاں کلک کریں۔
کلفٹن میں واقع عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے عرس کی تقریبات کا باقاعدہ افتتاح ہفتے کو کیا تھا۔ اس موقع پر صوبائی وزیر اوقاف عبدالحسیب بھی موجود تھے جبکہ آج یعنی پیر کو عرس کا آخری دن تھا ۔ اس وجہ سے بھی آج مزار پر ہزاروں زائرئن اور عقیدت مندوں کا بے انتہا رش رہا اور پولیس و قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دن پھر چوکنا رہنا پڑا۔ پھر دوپہر کو عرس کی اختتامی تقریب میں وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی ۔ اس لئے بھی آج غیر معمولی سخت سیکورٹی رہی۔
زائرین کی حفاظت کیلئے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے جبکہ عرس کے موقع پر آنے والوں کی 18 کیمروں کی مدد سے نگرانی کی جاتی رہی۔ اس حوالے سے ایک خصوصی سیل بھی قائم کیا گیا تھا۔ زائرین اور مزار پر آنے والے تمام افراد کو سخت چیکنگ سے گزرنا پڑا اور مزارتک پہنچتے پہنچتے کئی جگہوں پر خاص و عام کی چیکنگ کی گئی ۔ پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں کے علاوہ سٹی وارڈنر بھی سیکورٹی انتظامات پر تعینات رہے۔
تین دنوں کے دوران لاکھوں عقیدت مندوں نے عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر چادریں چڑھائیں اور پھول نچھاورکیے جبکہ اتوار کو رات گئے لنگرکے لیے دو اونٹ اور 5 گائیں ذبح کی گئیں۔ مزار پر لنگرکا سلسلہ 24گھنٹے جاری رہاجبکہ حضرت عبداللہ شاہ غازی کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لیے محفل سماع بھی منعقد ہوئی اور ملک کے نامور نعت خوانوں نے نعتیں اور قوالیاں پیش کیں۔
عرس کے بعد مزار پر سب سے زیادہ رش جمعرات کو ہوتا ہے ۔جیسے ہی جمعرات کی شام کا سورج غروب ہوتا ہے ، عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر لوگوں کی بھیڑشروع ہوجاتی ہے۔ لوگ جوق در جوق مزارکا رخ کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا تعلق ہر طبقے اور ہر عمر سے ہوتا ہے۔ کیا بچے کیابوڑھے، کیا عورت کیا مرد… سب کا رخ مزار کی طرف ہی ہوتا ہے۔ مزار تک آنے والے ٹریفک کا ہجوم دور سے ہی اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ آج جمعرات ہے …
یہ علاقہ کلفٹن اور ڈیفنس سے قریب اور شہر کے ایک کونے پر واقع ہونے کی وجہ سے لوگوں کو مین شہر سے دور محسوس ہوتا ہے تاہم لوگوں کے قافلے سوزوکی، ٹیکسی، رکشا، بسوں اور منی بسوں کے ذریعے وقفے وقفے سے یہاں پہنچتے رہتے ہیں۔
مزار سطح زمین سے کچھ اونچائی پرواقع ہے جہاں تک پہنچے کے لئے زائرین کو تقریباً پچاس سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں لیکن مزارسے عقیدت رکھنے والوں خصوصاً بڑی عمرکے افراد بھی اس اونچائی کو خاطرمیں نہیں لاتے اور جوش و جذبات میں یہ لوگ تھکاوٹ بھی ہنستے کھیلتے برداشت کرجاتے ہیں۔
مزار کے نچلے حصے میں الیکٹریشن، پلمبرز، مزدوروں ،فقراء اور دیگر پیشہ ور لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔ یہ لوگ روزگار کی تلاش کے علاوہ دعا اور منت ماننے کے لئے یہاں آتے ہیں۔ ڈھول بجانے اور دھمال ڈالنے والوں کا جم غفیر بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ لوگ رفتہ رفتہ مزار کی زینت اور رونق بن گئے ہیں۔ یہاں آنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ جس دن یہ گہما گہمی نہ ہو مزا ہی نہیں آتا۔ یہ بھیڑ بھاڑ اور لوگوں کا رش مزار کا لازمی جز بن گئے ہیں۔
قوالی صوفیانہ ماحول کا ایک لازمی جز تصور کی جاتی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ عبداللہ شاہ غازی کے مزارپر بھی قوالیوں کا اہتمام ایک روایت بن گئی ہے۔ قوالی سننے والوں کا بھی ایک اپنا ہی حلقہ ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ قوالی ان کے روئیں روئیں میں رچ بس گئی ہے۔
مزار کے احاطے میں اور اس کے آس پاس گاڑیوں اورلوگوں کو اس قدر رش ہوتا ہے کہ ٹریفک پولیس کے ساتھ ساتھ مزار کی انتظامیہ کو بھی اسے کنٹرول کرنا پڑتا ہے ۔ کچھ لوگ رضاکارانہ طور پر بھی یہ کام انجام دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ خدمت کرکے انہیں دلی تسکین ملتی ہے۔
مزار پر آنے والے تو ایک طرف ، مزارکے ارد گردحلیم، بریانی اور دیگر کھانے پینے کے اسٹال لگانے والے، شربت اور قماش قماش کے ڈرنکس بیچنے والے بھی جمعرات کی آمد کا بے صبری سے انتظارکرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عام دنوں کے مقابلے میں جمعرات کو ان کی آمدنی زیادہ ہوتی ہے کیوں کہ لوگوں کی مزار آمدو رفت کا سلسلہ ساری رات چلتا رہتا ہے۔
جمعرات کا دن ہی مزار پرآنے کے لئے کیوں مخصوص کیا گیا ہے اس بارے میں لوگوں کی مختلف آراء ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ چونکہ اگلے دن جمعہ ہوتا اور جمعے کے دن کو اسلام میں فضیلت دی گئی ہے اس لئے لوگ جمعرات کو جاگتے اور جمعے کو عبادت کرتے ہیں اور جمعہ کی نماز کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان میں جمعہ کو ہفتہ وار چھٹی ہوتی تھی لہذا لوگ ایک رات قبل جاگ کر عبادت کرتے اور اگلے دن آرام کیا کرتے تھے۔ جمعرات کو اسی وقت سے عبادت کے لئے مخصوص کرلیا گیا ہے۔
عبداللہ شاہ غازی کا عرس ذوالحج کے مہینے میں 20سے بائیس تاریخ تک پورے اہتمام اور تیاریوں کے ساتھ منایا جاتا ہے اور اس کا افتتاح صوبائی گورنر ، وزیر اعلیٰ یا دیگر سیاسی و سرکاری شخصیت کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ عرس کے موقع پر لوگوں کے ہجوم میں غیر معمولی طور پر اضافہ ہو جاتا ہے اور زائرین کی تعداد لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے۔
عرس کے موقع پر مزار کو غسل بھی دیا جاتا ہے اور لوگوں کے لئے لنگر عام کا اہتمام ہوتا ہے۔ یہ لنگر تین دنوں تک چلتا ہے اور سینکڑوں دیگیں مفت تقسیم کی جاتی ہیں۔ اس لنگر اور مزار کی دیکھ بھال محکمہ اوقات کرتا ہے جس کا دفتر بھی مزار کے احاطے میں ہی موجود ہے۔
مزارکے نچلے حصے کی ایک جانب تقریباً ہر زائرجو مزار پر پھول ، اگر بتی اور چادر چڑھانا چاہتا ہے ، یہاں ضرور آتا ہے۔ یہاں ایک دو نہیں درجنوں دکانیں ایسی ہیں جہاں ایک سے ایک چادر موجود ہے۔ ساتھ میں پھول ، بتاشے اور کھیلیں بھی ان دکانوں پر موجود ہیں۔ اس حصے میں تھوڑا آگے چلیں تو دیگیں پکانے والوں کی لائن سے دکانیں قائم ہیں، جو زائرین مزار پر آنے والے زائرین کوکھانا دینا چاہیں ان کے لئے یہ دکان والے ریڈی میڈ اور آرڈرپر دیگیں پکا کردیتے ہیں۔ بریانی، چنا پلاوٴ، قورمہ ، حلیم اور نہ جانے کیا کیا ڈشیں پکانے والے آپ کو یہیں مل جائیں گے۔
عبداللہ شاہ غازی اور ان کی دینی خدمات
عبداللہ شاہ غازی کا شمار عرب سے آنے والے مبلغین اسلام میں ہوتا ہے ۔ ان کی عرب دنیا سے سرزمین سندھ آنے کا مقصد ایک ہی تھا …سندھ کے لوگوں میں اسلام کی تبلیغ اور یہاں کے باسیوں کو راہ راست پر چلنے کی تلقین …
آپ کاپورا نام سید عبداللہ شاہ غازی تھا ۔ آپ کی کنیت ابو محمد اور لقب الاشتر ہے۔ والد کا نام سید محمد نفس ذکیہ تھا۔ آپ کا سلسلہ نصب پانچویں پشت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ملتا ہے۔ آپ کی ولادت 98 یعنی پہلی صدی کے آخر میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب بنو امیہ کی حکومت آخری ہچکیاں لے رہی تھی اور پوری امت انتشار کا شکار تھی۔
آپ کی تعلیم و تربیت اپنے والد محترم سید محمد نفس ذکیہ کے زیر سایہ ہوئی۔ علم حدیث میں ملکہ نامہ رکھتے تھے ۔اسی حوالے سے بعض مصنفین نے آپ کو محدثین میں شمار کیا ہے۔
دوسری صدی ہجری کے آغاز میں بنو امیہ کی حکومت ختم ہوچکی تھی۔ 137ھ میں عبداللہ شاہ غازی کے والد نے عباسیوں کے خلاف خروج کیا اور اپنی دعوت خلافت کی تحریک مدینہ منورہ سے شروع کی اور اپنے بھائی حضرت ابراہیم بن عبداللہ کو اسی غرض سے بصرہ کی جانب روانہ کیا۔ یہ وہ دور تھا جس میں سادات و اہل بیت کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ خلیفہ منصور عباسی نے سادات کی بیخ کنی شروع کی ہوئی تھی اور سادات کے قتل عام میں کوئی کسر باقی نہ رہ گئی تھی۔ حضرت ابراہیم کو ظلم و ستم کا نشانہ بنا یا گیا اور بلاخر دیوار میں زندہ گاڑ دیا گیا۔ حضرت عبداللہ شاہ غازی کو ان کے والد ماجد نے مدینہ سے بصرہ اپنے بھائی ابراہیم بن عبداللہ کے پاس بھیجا تھا لیکن ناساز حالات کے باعث حضرت عبداللہ شاہ کو عراق سے ہوتے ہوئے اپنے وطن عزیز کو ہمیشہ کے لئے خیر آباد کہہ کر سرزمین سندھ کی جانب عازم سفر ہونا پڑا۔
چونکہ اس زمانے میں عباسیوں اور علویوں کے درمیان خلافت کے سلسلے میں شدید کشمکش ہورہی تھی اور سادات کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا تھا اس وقت حضرت عبداللہ شاہ غازی نے خیال کیا کہ عین ممکن ہے کہ سندھ میں عباسیوں کے مقرر کردہ اراکین حکومت میرے خلاف قدم اٹھائیں اس لئے آپ نے بحیثیت تاجر سندھ میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا اور اپنے بیس کے قریب مریدین و رفقاء کے ساتھ پہلے کوفہ گئے ۔ وہاں بہت سارے گھوڑے تجارت کی غرض سے خریدے اور مسافت طے کرتے ہوئے سندھ کی سرزمین پر پہنچے اس لئے آپ کو گھوڑوں کا تاجر سمجھاگیا اورکسی نے کوئی خاص مداخلت و مزاحمت نہیں کی اور آپ با آسانی سرزمین سندھ میں داخل ہوگئے۔
جونہی آپ نے سندھ میں قدم مبارک رکھا، یہاں کے باشندوں نے آپ کی بڑی تعظیم کی اور عوام الناس میں آپ بے حد مقبول ہوگئے لیکن آپ کی یہ مقبولیت بعض لوگوں کو کھٹکنے لگی اور وہ آپ سے حسد کرنے لگے۔ بعض لوگوں نے گورنر سندھ حضرت عمر بن حفص جو کہ عباسی خلیفہ منصور کی جانب سے گورنر مقرر کئے گئے تھے، ان کے پاس عبداللہ شاہ غازی کے خلاف کان بھر دیئے۔لیکن حضرت عمر بن حفص پر اس کا الٹا اثر ہوا۔ انہوں نے لوگوں کی بات نہ صرف سنی ان سنی کردی بلکہ حضرت عبداللہ شاہ سے ملاقات کرکے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور درپردہ آپ کی حمایت کرتے رہے۔
اسی اثنا ء میں حضرت عمر بن حفص کو قصر خلافت بغداد سے مطلع کیا گیا کہ حضرت نفس ذکیہ نے مدینہ میں خلافت عباسی کے خلاف خروج کیا ہے اور بصرہ میں ان کے بھائی ابراہیم بن عبداللہ نے خلافت عباسی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہے۔ دونوں سے عباسی فوج نے مقابلہ کیا ۔ حضرت محمد نفس ذکیہ کو 15رمضان 145 ھ کو مدینہ میں شہید کردیا گیا اور ان کے بھائی حضرت ابراہیم بن عبداللہ کو بصرہ میں 25ذی القعدہ 145ھ بمطابق 14فروری 763ء عباسی فوج نے شکست دے کر موت کی نیند سلادیاہے لہذا ابو محمد حضرت عبداللہ شاہ کو جلد از جلد گرفتار کرکے دربار خلافت میں حاضر کیا جائے۔
حضرت عمر بن حفص نے خلیفہ منصور عباسی کو ہر طرح اطمینان دلایا اور کہا کہ حضرت عبداللہ شاہ غازی میری حدود مملکت میں نہیں ہیں اس لئے ان کی گرفتاری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن خلیفہ کو اطمینان نہیں ہوا۔ حضرت عمر بن حفص بہت دن تک اس معاملے کو ٹالتے رہے کہ خلیفہ کے ذہن سے حضرت عبداللہ شاہ کی گرفتاری کا خیال نکل جائے مگر کامیابی نہیں ہوئی۔
اس کی اطلاع جب حضرت عبداللہ شاہ کو ہوئی توآپ کو بڑا دکھ ہوا۔ دعوت اسلام کی جوتحریک آپ نے سندھ میں شروع کر رکھی تھی اور صد ہا آدمی آپ کے دست پر بیعت کرکے زیور اسلام سے پیراستہ ہوچکے تھے، یہ تحریک اچانک رک گئی ۔گورنر عمر بن حفص نے بھی اس بات کو پسند نہیں کیا کہ آپ کو کوئی گزند پہنچے۔ اس لئے آپ کو گورنر نے سندھ کی ایک ساحلی ریاست میں بھیج دیا اوروہاں کے راجہ کو جو اسلامی حکومت کا اطاعت گزار تھا اور اہل بیت سے محبت کرتا تھا ، ہدایت دی کہ حضرت عبداللہ شاہ غازی کی ہر طرح حفاظت کی جائے ۔
حالات کے تقاضے کو سمجھتے ہوئے حضرت عبداللہ شاہ سندھ کے ساحلی علاقے میں تشریف لے آئے ۔ ان کی آمدپر راجہ نے خوشی کا اظہار کیا اور آپ کی بہت تعظیم کی۔ راجہ نے خوش اخلاقی اور بھلائی کا بھی بھرپور مظاہرہ کیااور تبلیغ کے سلسلے میں ہر طرح کی حمایت کی اور کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہیں ہونے دی۔
آپ تقریباً چار سال تک راجہ کے مہمان رہے اور اس عرصے میں مسلسل اسلام کی تبلیغ کرتے رہے۔ آپ کی تبلیغی کاوش سے ریاست میں بھی کافی لوگوں نے اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کی اور مریدین کی ایک بڑی تعداد آپ کے ساتھ ہوگئی۔
ادھر خلیفہ منصور کی پریشانی برابر بڑھتی رہی اور وہ سندھ میں خلافت عباسیہ کے لئے آپ کوخطرہ محسوس کرتا رہا۔ آخر خلفیہ منصور نے 151ھ میں عمربن حفص کوسندھ کی گورنری سے معزول کرکے افریقہ بھیج دیا اور اس کی جگہ ہشام بن عمر کو سندھ کا گورنر مقرر کردیا۔
حضرت عمر بن حفص کے معزول ہونے کے بعد خلیفہ منصور عباسی نے ہشام بن عمر کو لکھا کہ سندھ کی جس ریاست میں حضرت عبداللہ شاہ سکونت پذیر ہیں اس کے راجہ کو لکھا جائے کہ حضرت عبداللہ شاہ غازی کو ہمارے حوالے کردے ورنہ اس پر حملہ کردیا جائے گا۔اسی دوران ہشام بحیثیت گورنر منتقل ہوکر سندھ میں آگئے۔
ان کے سندھ میں آنے کے کچھ عر صہ بعد ہی سندھ کے ایک علاقے میں حکومت کے خلاف بغاوت شروع ہوگئی۔ جس کو کچلنے کے لئے ہشام نے سفیح بن عمر کو بھیجا۔ سفیح بن عمر جب دریائے مہران کے قریب پہنچے تو سامنے سے غبار اڑتا ہوا نظرآیا۔ یہ حضرت عبداللہ شاہ غازی تھے جو سیرو شکار کی غرض سے تشریف لے جارہے تھے۔ سفیح نے انہیں اپنا حریف سمجھ کر لڑائی شروع کردی۔
فوج کے لوگوں نے کہا کہ یہ حضرت عبداللہ شاہ غازی ہیں مگر اس نے سنی ان سنی کردی لوگوں نے پھر سمجھایا یہ رسول اللہ کی اولاد میں سے ہیں آپ کے بھائی ہشام نے بھی انہیں چھوڑ دیا ہے مگر سفیح نے لڑائی کا آغاز کردیا۔ حضرت عبداللہ شاہ غازی کا نہ تو جنگ کا ارادہ تھا اور نہ ہی آپ مسلمانوں کی آپس کی خونریزی کوپسند فرماتے تھے۔ لیکن سفیح نے اپنی فوجوں کے ساتھ ہلہ بول دیا تو آپ مجبوراً اپنے مریدین کے ہمراہ میدان میں کود پڑے۔
ایک خونریز معرکہ بپا ہوا۔ آپ بمعہ اپنے مریدین کے اس طرح ڈٹ گئے کہ دشمن کے قدم اکھڑ نے لگے ۔ اتنے میں کسی ظالم کی تلوار آپ کے سر پر پڑی۔ آپ زخموں سے نڈھال ہوکر میدان کارزار میں گر پڑے لیکن لڑائی کا نقشہ کچھ اس قسم کا ہوا کہ دشمن فوج حواس باختہ ہوکربھاگ کھڑی ہوئی۔
اس وقت آپ کے باقی مریدین جو بچ گئے تھے انہوں نے آپ کے جسم کو چھو کر دیکھا تو روح قفس عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔ مریدین نے آپ کی میت کو اپنے قبضے میں لے لیا تا کہ دشمن کی منتشر فوج پلٹ کر نہ آجائے۔ یہ لوگ آپ کی نعش کو لے کر قریب کی جھاڑیوں میں روپوش ہوگئے ۔پھر جب اطمینان ہوا تو آپ کی لاش لئے جنگلوں اور وادیوں میں سے ہوتے ہوئے ساحل پر ایک مختصر گاوٴں میں پہنچے۔ وہاں قریب ہی ایک پہاڑ تھا جس کے اوپر لے جاکر آپ کے جسد خاکی کو سپر د خاک کردیا۔ یہ واقعہ 151ھ میں رونما ہوا۔اوریہ وہی جگہ ہے جہاں عبداللہ غازی کا مزار واقع ہے اور جسے دنیا کلفٹن کے نام سے جانتی ہے۔
حضرت عبداللہ شاہ غازی کی نمایاں کرامت میٹھے پانی کا وہ چشمہ ہے جو آپ کے مزار کے نیچے پہاڑی کی تلی میں ابل رہا ہے اور جس سے ہزاروں اللہ کے بندے سیراب ہوئے ہیں اور فائدے اٹھاتے ہیں۔
اس چشمے سے متعلق یہ روایت اکثر لوگوں کی زبانی سننے میں آئی ہے کہ حضرت عبداللہ شاہ غازی کو جب ان کے مرید پہاڑ پر دفن کرچکے تو ان کا دل نہیں چاہتا تھا کہ اپنے مرشد کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ چلے جائیں چنانچہ انہوں نے مزار کے قریب ہی سکونت اختیار کرلی مگر میٹھا پانی دور دور تک نہ ہونے کی وجہ سے ان کو سخت تکلیف کاسامنا کرنا پڑا۔ آخر ایک دن ان سب نے سخت پیاس اور مایوسی کے عالم میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حضرت عبداللہ شاہ غازی کاواسطہ دے کر دعا مانگی اور پانی ملنے کی درخواست کی۔
اس رات کو عبداللہ شاہ غازی نے ان مریدین میں سے ایک بوڑھے شخص کو خواب میں مطلع کیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری مشکل حل کردی ہے اور تمہارے لئے پہاڑی کی تلی میں پانی کا ایک چشمہ جاری کردیا ہے ۔ مریدین فجر کی نماز کے بعد نیچے اترے تو دیکھا کہ ٹھنڈے اور میٹھے پانی کا چشمہ ابل رہا ہے۔