ابرار احمد کی 'مسٹری اسپن' جس نے انگلش بلے بازوں کو بھی چکرا دیا

ابرار احمد نے اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میچ میں سات انگلش بلے بازوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔

گزشتہ ہفتے جب راولپنڈی ٹیسٹ میں انگلش بلے باز پاکستانی بالرز کے خلاف جارحانہ کھیل پیش کررہے تھے تو اس وقت پاکستانی ڈریسنگ روم میں ایک نوجوان موجود تھا جسے یہ سب کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔

جب اسی نوجوان کو سیریز کے دوسرے ٹیسٹ میں موقع ملا تو اس نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے ہی دن سات وکٹیں حاصل کرکے سب کو حیران کردیا۔

ملتان ٹیسٹ کے دوسرے سیشن میں جب انگلینڈ کی باری 281 رنز پر سمٹ گئی تو پاکستان کے بالنگ کارڈ میں ابرار احمد کے 22 اوورز میں 114 رنز دے کر سات وکٹوں کا کالم جگمگا رہا تھا۔

سن 1998 میں کراچی میں پیدا ہونے والے ابرار احمد نے جہاں ڈومیسٹک کرکٹ میں بلے بازوں کو پریشان کیے رکھا تو اب پاکستان کے دورے پر آئی انگلینڈ کی ٹیم بھی چکرا کر رہ گئی ہے۔

جب ابرار نے گوگلی پر بین اسٹوکس کو بولڈ کیا تو انگلش کپتان کے تاثرات بتارہے تھےکہ یہ گیند ان کی سمجھ میں نہیں آئی۔

کہنے کو تو ابرار احمد ایک لیگ اسپنر ہیں لیکن معروف لیگ اسپنر عبدالقادر کی طرح ان کے پاس گوگلی ، فلپر اور ایک ایسی گیند بھی ہے جو بغیر ٹرن ہوئے بلے باز کو پریشان کردیتی ہے۔

وہ اپنی اسی مسٹری بالنگ کو پاکستان کے کام میں لائے اور ملتان ٹیسٹ کے پہلے ہی دن سات انگلش کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے ریکارڈ بکس میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ وہ نہ صرف پاکستان کی جانب سے ڈیبیو پر سات وکٹیں لینے والے تیسرےبالر بن گئے بلکہ وہ پہلے ٹیسٹ کے پہلے دن لنچ سے قبل یہ کارنامہ انجام دینے والےدوسرے بالر بن گئے۔

یہی نہیں، اپنے پہلے ہی اوور کی پانچویں گیند پر زیک کرالی کو بولڈ کرکے ابرار احمد ان کھلاڑیوں کی فہرست میں شامل ہوگئے جو پہلے اوور میں وکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔


اس فہرست میں جہاں پاکستان کے مایہ ناز لیگ اسپنر انتخاب عالم ہیں، وہیں ہم وطن محمد سمیع، شاہد نذیر، فضل اکبر اور تنویر احمد کے نام بھی قابل ذکر ہیں۔

سات دہائیوں بعد ٹیسٹ کرکٹ میں کسی بالر نے ڈیبیو میچ کے پہلے سیشن میں پانچ وکٹیں لیں

ابرار احمد کا شمار پاکستان کے ان کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جنہیں فرسٹ کلاس کرکٹ میں اچھی کارکردگی کے باوجود قومی ٹیم میں شامل نہیں کیا جارہا تھا۔

مبصرین نے پہلے ٹیسٹ میچ میں ان کی جگہ زاہد محمود کو شامل کرنے کے فیصلے پر سخت تنقید بھی کی تھی جس کا اثر سلیکٹرز پر یہ پڑا کہ انہوں نے رواں سیزن میں 40 سے زائد وکٹیں حاصل کرنے والے کو جب موقع دیا تو اس نے سب کو حیران کردیا۔

وہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں پہلے ٹیسٹ میں سب سے زیادہ آؤٹ کرنے والے لیگ اسپنر تو نہ بن سکے، لیکن میچ کے پہلے ہی دن کے پہلے سیشن میں پانچ کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے ایک ایسے ریکارڈ کے مالک بن گئے جو اس سے قبل صرف ایک ہی بالر کے پاس تھا۔

یہ بالر تھے ویسٹ انڈیز کے بائیں ہاتھ سے بالنگ کرنے والے اسپنر ایلف ویلنٹائن جنہوں نے ٹھیک 72 سال قبل انگلینڈ ہی کے خلاف اپنے پہلے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں آٹھ کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا تھا جن میں سے پانچ وکٹیں پہلے سیشن میں تھیں۔


ابرار احمدنے بھی انگلینڈ کے پانچ مستند بلے بازوں کو واپس پویلین بھیج کر ایلف ویلنٹائن کا ریکارڈ برابر بھی کردیا، اور اپنا لوہا بھی منوالیا، میچ میں ان کی سات وکٹیں پاکستان کی جانب سے کسی بھی ڈیبیو کرنے والے بالر کی تیسری بہترین کارکردگی ہے۔

پاکستان کی جانب سے پہلے ہی ٹیسٹ میں ایک اننگز میں سات کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے والا تیسرا بالر

ابرار احمد سے قبل اپنے ٹیسٹ ڈیبیو پر پاکستان کی جانب سے صرف دو کھلاڑیوں نےا یک اننگز میں سات سات کھلاڑی آؤٹ کئے تھے، وہ ایسا کرنے والے تیسرے پاکستانی کھلاڑی ہیں۔


ان سے قبل آف اسپنر نذیر جونئیر نے 1969 میں اور فاسٹ بالر محمدزاہد نے 1996 میں نیوزی لینڈکے خلاف یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔نذیر جونئیر نے میچ کی پہلی اننگز میں 99 رنز کے بدلے سات کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا تھا تو محمد زاہد نے پہلی اننگز میں 64رنز کے عوض چار، اور دوسری اننگز میں 66 رنز کے جواب میں سات وکٹیں حاصل کی تھیں۔

ابرار احمد کے پاس اب بھی ایک بہترین موقع ہے 26 سال سے قائم محمد زاہد کے ریکارڈ کو توڑنے کا، اگر وہ دوسری اننگز میں پانچ وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو محمد زاہد کو دوسرے نمبر پر دھکیل سکیں گے۔


پاکستان کی جانب سے ڈیبیو ٹیسٹ میں پانچ کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے والوں میں شاہد آفریدی، محمد سمیع، یاسر عرفات، وہاب ریاض اور تنویر احمد بھی شامل ہیں۔

پہلے میچ کی کسی بھی اننگز میں پانچ وکٹیں حاصل کرنے والے دیگر کھلاڑیوں میں عارف بٹ، شاہد نذیر، شبیر احمد ، بلال آصف اور نعمان علی بھی قابلِ ذکر ہیں۔


ابرار احمد کو ہالی وڈ فلم 'ہیری پورٹر' کے کردار سے مشابہت پر ان کے ساتھی ہیری پورٹر کہا کرتے ہیں، لیکن ان کی جادوئی بالنگ نے ثابت کیا کہ وہ اسپن کے جادوگر بھی ہیں۔

ان کے پہلے ہی ٹیسٹ کے شکاروں میں بین اسٹوکس اور جو روٹ جیسے مستند بلے باز بھی شامل ہیں ، ابرار احمد ان کے خلاف کیوں چلے یہ جاننے کے لیے ابرار احمد کے بچپن کا جائزہ لینا پڑے گا۔


اس مسٹری لیگ اسپنر نے بالنگ کا ہنر کراچی کی سڑکوں پر ٹیپ بال کرکٹ کھیل کر سیکھا، اسی وجہ سے دیگر اسپنرز سے وہ ذرا مختلف ہیں او ر ان کے ہتھیاروں میں لیگ بریک اور گوگلی کے ساتھ ساتھ ایک کیرم بال بھی ہے جو بلے باز کو پریشان کرنے کے لیے کافی ہے۔

ابرار احمد کے آباؤ اجداد کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے چھوٹے سے قصبے شنکیاری سے ہے تاہم وہ اپنے والدین کی کراچی ہجرت کے بعد اسی شہر میں پیدا ہوئے۔

چند سال قبل انہیں ٹی ٹوئنٹی اسپیشلسٹ سمجھا جاتا تھا لیکن قائداعظم ٹرافی کے رواں سیزن میں انہوں نے سندھ کی جانب سے ایک دو نہیں، 12 اننگز میں پانچ یا اس سے زائد وکٹیں حاصل کرکے سلیکٹرز کو اپنی طرف متوجہ کیا۔


صحافی آصف خان نے ابرار احمد کے شاندار ڈیبیو کے بعد ٹوئٹ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ جہانگیر روڈ پر کرکٹ کھیلتے کھیلتے ٹیپ بال کرکٹ کی جانب آئے جہاں سے انہیں مقامی کوچ محمد مسرور نے چن کر کراچی سے زون تھری ٹیم میں کھلایا۔ بعد ازاں وہ راشد لطیف کرکٹ اکیڈمی کا حصہ بنے اور پھر کراچی کنگز نے انہیں منتخب کیا۔

یہی نہیں پاکستان سپر لیگ کے دوسرے ایڈیشن کے ایک میچ میں جب انگلش ٹیم کے اس وقت کے کپتان اوئن مورگن نے 57گیندوں پر 80 ناٹ آؤٹ کی اننگز کھیلی تھی، تب بھی وہ ابرار احمد کو سمجھنے سے قاصر رہے تھے اور انہوں نے ان کی 16 گیندوں پر صرف 17 رنز بنائے تھے۔


ابرار احمد کے کریئر میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کی فٹنس رہی ہے ، کمر کی تکلیف کی وجہ سے وہ دوسال تک کرکٹ سے دور رہے جس کے بعد سے وہ مکمل فٹ ہو کر کرکٹ کھیل رہے ہیں۔