سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلوچستان حکومت اور کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ کارپوریشن کے درمیان ہونے والے ریکوڈک معاہدے کو قانونی قرار دے دیا ہے۔
اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے جمعے کو 13 صفحات پر مشتمل ریکوڈک کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ ریکوڈک معاہدے میں کوئی غیر قانونی بات نہیں ہے اور اس ضمن میں بین الاقوامی ماہرین نے عدالت کی معاونت کی ہے۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ صوبے معدنیات سے متعلق قوانین میں تبدیلی کر سکتے ہیں جب کہ ریکوڈک معاہدے سے متعلق صوبائی اسمبلی کو بھی بریفنگ دی گئی تھی۔
سپریم کورٹ کے مطابق آئین پاکستان خلافِ قانون قومی اثاثوں کے معاہدے کی اجازت نہیں دیتا۔ البتہ ریکوڈک معاہدے میں ایسی کوئی بات نہیں جو خلافِ قانون ہو۔
'یہ کسی فردِ واحد کا نہیں بلکہ پاکستان کا منصوبہ ہے'
دوران سماعت سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ ریکوڈک معاہدہ ماحولیاتی حوالے سے بھی درست ہے جب کہ کمپنی نے یقین دلایا ہے کہ مزدوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے اپنی رائے میں مزید کہا ہے کہ منصوبے کے تحت علاقے میں سوشل ویلفیئر منصوبوں پر بھی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ کمپنی کے وکیل نے بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ اسکل ڈویلپمنٹ کے لیے منصوبے شروع کیے جائیں گے۔
سپریم کورٹ کے مطابق منصوبے کی کانٹریکٹر کمپنی بیرک نے یقین دلایا ہے کہ تنخواہوں کے قانون پر مکمل عمل ہو گا جب کہ زیادہ تر تک لیبر بھی پاکستانی ہو گی۔
سپریم کورٹ کی رائے میں مزید کہا گیا ہے کہ ریکوڈک منصوبہ کسی فردِ واحد کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے لیے ہے۔
ریکوڈک منصوبے پر رائے کے لیے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے ججز نے متفقہ فیصلہ سنایا ہے۔ لیکن بینچ میں شامل جسٹس یحیی آفریدی نے معاہدہ عوامی مفاد کا ہونے یا نہ ہونے سے متعلق سوال کا جواب نہیں دیا۔
سپریم کورٹ کے پانچ رُکنی بینچ نے ریکوڈک سے متعلق صدارتی ریفرنس پر 29 نومبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا جب کہ اس حوالے سے 17 سماعتیں ہوئی تھیں۔
اس معاملے میں بیروسٹر فروغ نسیم، سلمان اکرم راجہ اور ایڈووکیٹ زاہد ابراہیم نے بطور عدالتی معاون سپریم کورٹ کی معاونت کی تھی۔
معاہدے کا پس منظر
بلوچستان کےضلع چاغی میں سونے اور تانبے کے سب سے بڑے منصوبے ریکوڈک پر صوبائی حکومت اور بیرک گولڈ کارپوریشن نامی کمپنی کے درمیان رواں برس مارچ میں معاہدہ طے پایا تھا۔
اس معاہدے کے تحت کمپنی نے منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
چاغی میں واقع معدنیات کے ذخائر کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ دنیا میں وہ کاپر اور سونے کی سب سے بڑی کانوں میں سے ایک ہیں جن پر آج تک مکمل طو رپر کام شروع نہیں ہو سکا۔
حکومتِ پاکستان نے ان ذخائر کی تلاش کے لیے 28 برس قبل ریکوڈک منصوبے کا آغاز کیا تھا۔ لیکن اس سے ملک کو کسی فائدے کے بجائے بین الاقوامی اداروں میں مقدمہ بازی پر خطیر اخراجات بھی اٹھانا پڑے ہیں۔
گزشتہ برس بین الاقوامی ثالثی ٹریبونل نے پاکستان پر ریکوڈک پراجیکٹ کے مقدمے میں تقریباً چھ ارب ڈالر کا جرمانہ کیا تھا۔
اس ریفرنس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
ریکوڈک معاہدے کو سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے 2013 میں کالعدم قرار دے دیا تھا۔
ماہرین کے مطابق کمپنی مستقبل میں کسی بھی قانونی کارروائی اور ماضی میں کیے گئے فیصلے کو بنیاد بنا کر دوبارہ اس معاہدے کو ختم کرنے کے حوالے سے تمام شکوک و شبہات ختم کرنا چاہتی تھی اور اس مقصد کے لیے پاکستانی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی منظوری چاہتی تھی۔
جولائی میں سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سے ملاقات کے بعد اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے بیرک گولڈ کارپوریشن کے صدر اور چیف ایگزیکٹو افسر مارک بیرسٹو نے کہا تھا کہ معاہدے کی پائیداری کے لیے ضروری ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اس کا جائزہ لے اور پارلیمنٹ قانون سازی کے ذریعے اس کی توثیق کرے۔
پاکستان اور بیرک گولڈ کے معاہدے میں مزید کیا ہے؟
رواں سال 21مارچ 2022 کو پاکستان نے بیرک گولڈ کارپوریشن کے ساتھ عدالت سے باہر ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت کمپنی نے پاکستان پر عائد اربوں ڈالر جرمانہ معاف کرنے اور 2011 سے رکے کان کنی کے منصوبے کو بحال کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو اور بیرک گولڈ کارپوریشن نے 14 اگست 2022 سے اس پراجیکٹ پر کام شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس منصوبے سے متعلق جاری معلومات کے مطابق اس منصوبے کے منافع میں سے بیرک گولڈ 50 فی صد، پاکستان کی وفاقی حکومت کے ادارے 25 فی صد، اور بلوچستان حکومت 25 فی صد حصے کے حق دار ہوں گے۔
ریکوڈک کے علاقے میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش کا کام کینیڈا اور چلی کی کمپنیوں کے اتحاد ٹیتھیان کاپر کمپنی نے 2006 میں شروع کیا تھا۔
کمپنی نے ان قیمتی دھاتوں کے ذخائر کی کل مالیت کا تخمینہ ایک سو ارب ڈالر لگایا تھا، تاہم مقامی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ اندازہ درست نہیں، کیوں کہ اُن کے بقول علاقے میں ایک ہزار ارب ڈالر مالیت کے ذخائر موجود ہیں۔
سپریم کورٹ کی ہدایت پر پاکستان کے ایک نام ور جوہری سائنسدان اور سرکاری منصوبہ بندی کمیشن کے رکن ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے عدالت کو بتایا تھا کہ پاکستان ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کو نکالنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے، اس لیے اسے اس کام کے لیے بیرونی کمپنیوں کا سہارا نہیں لینا چاہیے۔
پاکستان میں بعض ماہرین کا خیال ہے کہ چاغی کے دور افتادہ علاقے ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر سے مؤثر انداز میں استفادہ کیا جائے تو اس سے نہ صرف اپنے قرضے اُتار سکتا ہے، بلکہ اس سے بلوچستان کے مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں۔