افغانستان کے ایک اعلیٰ عہدے دار وحید عمر نے طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کے اس بیان کے ردعمل میں کہ جنگ بندی کے لیے ضروری ہے کہ پہلے صدر اشرف غنی مستعفی ہوں اور پھر باہمی مشاورت سے نئی حکومت قائم کی جائے، کہا ہے کہ افغانستان کی حکومت پہلے ملک میں خون خرابے کا خاتمہ چاہتی ہے اور اس کے بعد تمام مسائل مذاکرات کی میز پر زیر بحث لائے جا سکتے ہیں۔
وحید عمر نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ہم کسی طرح کے سنجیدہ مذاکرات سے پہلے ملک میں خون خرابہ اور افغان عوام کی ہلاکتیں روکنے پر زور دیں گے۔ پہلی چیز یہ ہے کہ افغانستان کے عوام موجودہ خوف و ہراس کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
ٹوئٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ آپ لڑائی ختم کریں، اور تمام مسائل پر بات چیت کے لیے مذاکرات کی میز پر واپس آئیں۔ حکومت تبدیل کرنا ایک آسان کام ہے۔ لوگ ایک دن میں ووٹ ڈال کر نئی حکومت منتخب کر سکتے ہیں۔
اس سے قبل دوحہ میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ طالبان اقتدار پر قبضہ کرنا نہیں چاہتے، لیکن انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک کابل میں اشرف غنی کی حکومت کی جگہ باہمی مشاورت سے نئی حکومت بن نہیں جاتی۔
سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ جب کابل میں اس تنازع کے تمام متعلقہ فریقوں کے لیے قابل قبول حکومت قائم ہو جائے گی اور اشرف غنی کی حکومت چلی جائے گی تو طالبان ہتھیار رکھ دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہم اقتدار پر اجارہ داری پر یقین نہیں رکھتے، کیونکہ ماضی میں جنہوں نے بھی اقتدار پر قبضہ کیا، ان کی حکومتیں کامیاب نہیں ہوئیں۔
سہیل شاہین کا انٹرویو ایک ایسے موقع پر منظر عام پر آیا ہے جب دوحہ میں افغانستان کے مذاکراتی وفد نے جمعرات کو طالبان کی ٹیم کے ساتھ ملاقات کی۔
دونوں وفود کے مطابق، ان کے ارکان نے امن مذاکرات کی رفتار تیز کرنے پر تبادلہ خیال کیا۔
غیرملکی وفود کی دوحہ میں طالبان سے ملاقات
دوحہ میں طالبان کے ایک اور ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم نے میڈیا کو بھیجے گئے اپنے ایک آڈیو پیغام میں کہا ہے کہ دوحہ میں طالبان کے وفد نے امریکہ، جرمنی، فرانس، برطانیہ، یو این اے ایم اے اور کئی دوسروں کے نمائندوں کے ساتھ موجودہ صورت حال پر گفتگو کی۔
ڈاکٹر نعیم کا اپنے پیغام میں کہنا تھا کہ عسکری لحاظ سے طالبان اب افغانستان میں ایک بہتر پوزیشن میں ہیں، لیکن وہ دوسروں کی شمولیت والی حکومت کے خواہش مند ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس میٹنگ میں قیدیوں کی رہائی، اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ پر طالبان قائدین کے ناموں اور پناہ گزینوں کے امور پر بھی بات ہوئی۔
طالبان سے کرخ ضلع کا قبضہ واپس لینے کا دعویٰ
افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی فورسز نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے صوبے ہرات کے ایک اہم ضلع کرخ کا کنڑول طالبان سے چھین لیا ہے۔
ہرات کی صوبائی عسکری کونسل نے کہا کہ اس کارروائی کے دوران 15 طالبان عسکریت پسند ہلاک جب کہ 20 زخمی ہوئے۔
امیگریشن کے منتظر افغانوں کے عارضی قیام کی امریکی درخواست مسترد
افغانستان سے ہی منسلک اور ایک خبر کے مطابق ہمسایہ ملک ازبکستان نے جمعرات کے روز کہا کہ امریکہ کی یہ درخواست قبول کرنے کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے کہ امریکہ کے ہزاروں افغان اتحادیوں کو عارضی طور پر اس عرصے تک قیام کرنے کی اجازت دے دی جائے، جب تک وہ امریکہ میں اپنی امیگریشن کا پراسس مکمل ہونے کا انتظار کریں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
چند ہفتے قبل امریکہ کے محکمہ خارجہ نے کہا تھا کہ اس سلسلے میں ازبکستان، تاجکستان اور ترکمانستان کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے۔
افغان فورسز کی مدد کے لیے امریکی فضائی کارروائیاں
جمعرات کے روز امریکی محکمہ دفاع کے ایک عہدے دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ امریکہ نے گزشتہ 30 دنوں میں طالبان کے خلاف افغان سیکیورٹی فورسز کی مدد کے لئے افغانستان بھر میں لگ بھگ نصف درجن فضائی حملے کئے۔ ان میں سے بیشتر امریکی ڈرونز کے ذریعے اس فوجی ساز و سامان کو ہدف بنا کر کیے گئے، جنہیں طالبان نے افغان نیشنل ڈیفینس اور سیکیورٹی فورسز سے چھینا تھا۔
اب تک امریکی عہدےدار یہ امکان مسترد کرتے رہے ہیں کہ امریکی فورسز کے افغانستان سے انخلا کے دوران وہاں موجود امریکی فورسز کے تحفظ کے لئے افغان زمینی فورسز کی کسی بھی طور مدد کی گئی ہے۔