روس نے منگل کے روز کہا ہے کہ طالبان "سیاسی تصفیے" کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا جاری ہے، اور طالبان جنگجوں نے افغانستان کے مزید علاقوں پر قبضے کے لیے افغان فوج کے خلاف لڑائی جاری رکھی ہوئی ہے۔
خبر رساں ادارے، اے ایف پی نے کہا ہے کہ جنگجوؤں کی جانب سے لڑائی کے میدان میں کامیابی کے نتیجے میں بات چیت کے حالیہ دور غیر حتمی ثابت ہوئے ہیں۔
افغانستان میں روس کے سفیر، ضمیر کابلوف نے منگل کے دن ایک اجلاس کے دوران بتایا کہ طالبان مذاکرات میں شامل دیگر فریقوں کی جانب سے پیش کردہ سیاسی پیش کش کو زیر غور لانے پر تیار نظر آتے ہیں۔ اس موقعے پر سابق افغان صدر حامد کرزئی بھی موجود تھے۔
افغانستان میں روس کے سفیر کابلوف نے کہا کہ گزشتہ 20 برس کے دوران طالبان کی زیادہ تر قیادت لڑائی سے تنگ آ چکی ہے اور ان کے خیال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ تعطل کو ختم کرنے کے لیے سیاسی حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ طالبان گروپس کے بیانات اور کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ وہ سیاسی تصفیے کے لیے تیار ہے۔
لیکن، کابلوف نے مزید کہا کہ ان کے نکتہ نظر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انھیں سیاسی حل سلیقے سے پیش کیا جانا چاہیے۔
ان کا یہ بیان ایسے میں سامنے آیا ہے جب غیر ملکی افواج کے انخلا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے طالبان نے بیسیوں افغان اضلاع اور سرحدی کراسنگز کو فتح کرنے کے بعد کئی مقامات پر صوبائی دارالحکومتوں کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔ جبکہ اختتام ہفتہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین قطر میں مذاکرات کا دوسرا دور بھی غیر حتمی ثابت ہوا ہے، جب کہ توقع یہ تھی کہ اس سے کمزور امن عمل میں جان پڑ جائے گی۔
روس نے افغان تنازعے کے بدلتے منظرنامے پر قریبی نظر رکھی ہوئی ہے۔
سن 1979میں افغانستان پر روسی فوج کا قبضہ تھا اور دس سالہ تنازعے کے دوران 14000سے زائد سوویت فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
حالیہ سالوں کے دوران روس نے طالبان نمائندوں سے بات چیت کے لئے ماسکو میں کئی بار مذاکرات کی میزبانی کی ہے، جن میں سے ایک مذاکراتی دور رواں ماہ مکمل ہوا تھا ۔
روس اس امکان کا بھی جائزہ لے رہا ہے کہ افغانستان میں عدم استحکام کا اثر ہمسایہ وسط ایشیائی ملکوں پر کیسے ہوگا، جو سابق سوویت یونین کا حصہ تھے اور جہاں روس کے اہم فوجی اڈے اب بھی موجود ہیں۔
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف یہ کہہ چکے ہیں کہ روس کو خدشہ ہے کہ افغانستان میں عدم استحکام سے دہشت گردی کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے اور منشیات کی سمگلنگ میں تیزی آسکتی ہے۔
[یہ رپورٹ خبر رساں ادارے، اے ایف پی کی اطلاعات پر مبنی ہے]