طالبان کی مخالفت کے باوجود ترکی افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد کابل انٹرنیشنل ائیر پورٹ کی سیکیورٹی سنبھالنے کے اپنے منصوبوں کو آگے بڑھا رہا ہے اور ائیر پورٹ کو محفوظ بنانے کے لئے واشنگٹن سے گفت و شنید جاری رکھے ہوئے ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترکی، افغانستان میں استحکام اور بین الاقوامی موجودگی برقرار رکھنے کے لئے کلیدی اہمیت رکھتا ہے، جب کہ اس سے قبل طالبان یہ انتباہ کر چکے ہیں کہ اگر ترکی کی فوج غیر ملکی فورسز کے انخلا کے بعد افغانستان میں رہی تو اس کے خلاف دشمن کے طور پر جہاد کیا جائے گا اور اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تاہم، ترک صدر رجب طیب اردوان اس ہفتے کے دوران اپنے تبصروں اور بیانات میں ان دھمکیوں کو زیادہ اہمیت دیتے دکھائی نہیں دیے۔ انہوں نے اس جانب اشارہ کیا ہے کہ کابل ایئرپورٹ کی سیکیورٹی سے متعلق بات چیت جاری رہے گی۔
اردوان نے کہا کہ ترکی یہ دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے کہ آیا وزارت خارجہ کی سطح پر یا ان کی اپنی سطح پر وہ طالبان کے ساتھ کس قسم کے مذاکرات کر سکتے ہیں اور یہ مذاکرات کہاں منعقد ہو سکتے ہیں۔
انقرہ طالبان کی مخالفت میں کمی کے سلسلے میں افغانستان سے اپنے تاریخی روابط اور نیٹو کے واحد نمایاں طور پر مسلم رکن کی اپنی حیثیت پر انحصار کر رہا ہے۔ افغانستان میں تعینات تقریباً 500 فوجیوں پر مشتمل ترک دستے نے طالبان کے ساتھ کسی فوجی محاذ آرائی سے گریز کیا ہے۔
تاہم، انقرہ میں قائم فارن افیئرز انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ حسین باچی نے، جو حال ہی میں علاقے سے واپس آئے ہیں، انتباہ کیا ہے کہ انقرہ اپنی حیثیت کا اندازہ لگانے میں زیادہ خوش فہمی سے کام لے رہا ہے، کیوں کہ طالبان تمام غیر ملکی فورسز کو وہاں سے نکالنے کا پختہ عزم رکھتے ہیں۔
حسین باچی کا کہنا ہے کہ ایئرپورٹ سے متعلق ترکی کی کسی طرح کی بھی شمولیت ترکی کی خارجہ پالیسی کے لیے تباہ کن ہو سکتی ہے۔ طالبان نے کہا ہے کہ وہ رجب طیب اردوان کو پسند نہیں کرتے اور وہ ترکی کی فوجی موجودگی کے خلاف ہیں۔ طالبان تمام غیر ملکی فورسز کو ملک سے نکال باہر پھیکنے کے لیے پرعزم ہیں اور یقینی طور پر ترکی کی موجودگی بھی غیر مطلوب ہے۔
ترکی کابل ایئرپورٹ مشن کے لیے واشنگٹن سے اپنی بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔ دونوں فریق اپنی بات چیت کو سود مند قرار دے چکے ہیں۔ نیٹو کے ان دونوں اتحادیوں کے درمیان گزشتہ کچھ عرصے سے، جب سے ترکی کے روس کے ساتھ روابط گہرے ہوئے ہیں، شدید کشیدگی دیکھی جا رہی ہے۔
ترکی کابل ایئرپورٹ مشن کے سلسلے میں اپنے قریبی اتحادیوں پاکستان اور قطر کی طرف دیکھ رہا ہے، جن کے طالبان کے ساتھ گہرے مراسم ہیں۔ لیکن حسین باچی کا کہنا ہے کہ اب جب کہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ طالبان اقتدار حاصل کرنے کے قریب ہیں، پاکستان اور قطر کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان، قطر اور ترکی طالبان کی ترجیحی فہرست میں نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ روس، چین، امریکہ اور کسی حد تک بھارت کو اہمیت دیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ پہلے وہ اپنی حکومت قائم کریں گے اور اس کے بعد بات چیت کریں گے۔
ترکی کے ایک کالم نگار الہان ازگل کا کہنا ہے کہ انقرہ کابل ایئرپورٹ مشن کو بائیڈن انتطامیہ کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کا ایک موقع سمجھتا ہے اور یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ترکی امریکہ کے لئے ایک اہم اتحادی ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر ترکی وہاں اپنی فورسز رکھنے پر اصرار کرتا ہے تو یہ عمل خطرے سے خالی نہیں ہو گا۔ اگر ترکی طالبان کے حالیہ بیان کو تسلیم کر لیتا ہے تو وہ اس کے لیے شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے۔
الہان ازگل کے مطابق، چونکہ ترکی کے پاس طالبان پر دباو ڈالنے کے لئے زیادہ کچھ موجود نہیں، اس لئے کابل ائیر پورٹ کے متعلق امریکہ کے ساتھ بات چیت سے آخری لمحات میں پیچھے ہٹ جانے کا راستہ موجود ہے، لیکن اس سے امریکہ کے ساتھ ترکی کے دو طرفہ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔