افغانستان میں دو سال قبل طالبان کی حکومت آنے کے بعد پاکستان منتقل ہونے والے صحافیوں، موسیقاروں، گلوکاروں اور فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے 31 اکتوبر تک غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک چھوڑنے کے حکومتِ پاکستان کے فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا ہے۔
افغان فنکاروں رفیع حنیف، حشمت اللہ امیدی اور حمید شہدائی نے پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت وکیل ممتاز احمد خان کے ذریعے درخواست دائر کی ہے۔
درخواست میں حکومت، وزارتِ داخلہ، نادرا، ڈی جی امیگریشن اور وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ افغانستان کے موجودہ حالات میں ان کے لیے اپنے ملک میں رہنا ممکن نہیں، لہٰذا انہیں پاکستان میں پناہ فراہم کی جائے۔
ادھر خیبرپختونخوا کے گلوکاروں اور موسیقاروں کی تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر راشد احمد خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس وقت پشاور میں افغانستان سے منتقل ہونے والے لگ بھگ 200 موسیقار ، گلوکار، صحافی، شعرا اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد رہائش پذیر ہیں۔
درخواست دائر کرتے وقت پشاور ہائی کورٹ میں موجود افغان طبلہ نواز فقیر محمد نیازی نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان میں ان کے رہنے کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں، اسی وجہ سے وہ انسانی ہمدردی کے بنیاد پر حکومت پاکستان سے عارضی طور پر رہائش یا پناہ کی درخواست کر رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
خیبرپختونخوا کی سیاسی جماعتوں نیشنل ڈیمو کریٹک موومنٹ، پاکستان مزدور کسان پارٹی سمیت دیگر تنظیموں نے بھی افغان فن کاروں کو ملک بدر نہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
واضح رہے کہ حکومتِ پاکستان نے غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک چھوڑنے کے لیے یکم نومبر تک کی مہلت دی ہے۔ یہ فیصلہ رواں ماہ کے آغاز میں پاکستان کے سول و فوجی حکام پر مشتمل اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران کیا گیا تھا جس میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی شریک تھے۔
پاکستان نے الزام لگایا تھا کہ ملک میں دہشت گردی کے بیشتر واقعات میں افغان شہری ملوث ہیں، لہذٰا غیر قانونی تارکینِ وطن کو یکم نومبر کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔
طالبان حکومت نے پاکستان کی جانب سے غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک بدر کرنے کے فیصلے پر تنقید کی تھی جب کہ افغان شہریوں کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات کو بھی مسترد کیا تھا۔
اب تک کتنے افغان مہاجرین واپس جا چکے ہیں؟
وائس آف امریکہ کے ایاز گل کی رپورٹ کے مطابق تین اکتوبر کو حکومت کی جانب سے دی جانے والی ڈیڈ لائن کے بعد 20 اکتوبر تک غیر قانونی طور پر مقیم 52 ہزار افغان باشندے واپس جا چکے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق افغان باشندوں کی وطن واپسی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
رضاکارانہ طور پر واپس جانے والوں کے لیے 30 ڈالر فی کس امداد
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس کی نسبت رواں برس رضاکارانہ طور پر افغانستان واپس جانے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
یو این ایچ سی آر کے پاکستان میں ترجمان قیصر آفریدی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 10 اکتوبر تک تین ہزار 106 خاندانوں پر مشتمل 13 ہزار 666 افغان باشندے واپس گئے جب کہ گزشتہ برس اسی عرصے کے دوران یہ تعداد محض چھ ہزار تھی۔
اُن کا کہنا تھا کہ رضاکارانہ طور پر واپس جانے والوں کو اخراجات کے لیے فی کس 30 امریکی ڈالرز دیے جا رہے ہیں۔
ملک بدر نہ کرنے کے مطالبات
امریکہ اور اقوامِ متحدہ نے پاکستان سے یہ مطالبہ کر رکھا ہے کہ وہ پناہ کے لیے پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کو زبردستی ملک بدر نہ کرے کیوں کہ خدشہ ہے کہ افغانستان واپسی پر ان افراد کو طالبان کے جبر کا سامنا ہو سکتا ہے۔ تاہم بظاہر پاکستان ان مطالبات کو نظرانداز کر رہا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے حالیہ نیوز بریفنگ میں کہا تھا کہ "ہم پاکستان سمیت افغانستان کے ہمسایہ ملکوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ پناہ کے لیے آنے والے افغان باشندوں کو یہ موقع دیں کہ وہ یو این ایچ سی آر سمیت عالمی تنظیموں سے رابطہ کر سکیں۔"
طالبان حکومت نے پاکستان سے افغان باشندوں کی بے دخلی روکنے کے مطالبے کے ساتھ ساتھ سرحد کے قریب خصوصی کیمپ بھی قائم کیے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
'ہماری زندگی کو افغانستان میں خطرہ ہے'
ملک بدری کا سامنا کرنے والی ایک خاتون نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن کے شوہر صحافی ہیں اور وہ گزشتہ برس اپنے خاندان کے تحفظ کے لیے پاکستان آئیں تھیں۔
اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر تین بچوں کی ماں حلیمہ (فرضی نام) نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "میرے شوہر صحافی تھے اور امریکیوں کے لیے کام کرتے تھے، لہذٰا ہم واپس نہیں جانا چاہتے کیوں کہ ہماری زندگی کو خطرہ ہے۔"
حلیمہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی حکام نے اُن کے ویزے میں توسیع کی درخواست بھی رد کر دی ہے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ "جب میں باہر جاتی ہوں تو اسی سوچ میں کھوئی رہتی ہوں کہ آگے کیا ہو گا؟ میرے پاس ویزہ نہیں ہے، میرے شوہر کے پاس ویزہ نہیں ہے، اگر پولیس نے اُنہیں گرفتار کر لیا تو میں اپنے تین بچوں کے ساتھ کہاں جاؤں گی۔"
واضح رہے کہ طالبان حکومت افغانستان واپسی کا ارادہ رکھنے والے باشندوں کے خلاف کارروائی کے الزامات کو رد کرتے رہے ہیں۔
طالبان حکام کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ امریکہ سمیت نیٹو افواج کے ساتھ کام کرنے والے افغان باشندوں کو عام معافی دے دی گئی ہے۔
خیال رہے کہ طالبان نے سیکنڈری اسکول کی لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے علاوہ خواتین کو کام کرنے سے روکنے سے متعلق کئی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔
امریکہ اور مغربی ممالک طالبان کو ان کے اقدامات پر تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں، تاہم طالبان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ اسلامی شریعت کے تحت یہ فیصلے کر رہے ہیں۔