انسانی ہمدردی کے ایک بڑے گروپ نے پیر کو خبردار کیا کہ افغانستان میں امدادی کارکنوں پر پابندی سے 60 لاکھ لوگ قحط کا شکار ہو سکتے ہیں اور چھ لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہو سکتے ہیں ۔
اسلام آبا د سے وی او اے کے ایاز گل کی رپورٹ کے مطابق ناروے کی ریفیو جی کونسل کے سیکرٹری جنرل جین ایگلینڈ نے کابل میں طالبان عہدے داروں کے ساتھ مذاکرات کے بعد یہ انتباہ جاری کیا ۔
انہوں نے ٹویٹ کیا کہ غیر سرکاری اداروں میں خواتین کارکنوں پر مسلسل پابندی سے 13 اعشاریہ 5 ملین افراد پینے کے پانی اور 14 اعشاریہ ایک ملین لوگ حفاظتی سہولتوں سے محروم ہو سکتے ہیں ۔
ایگلینڈ نے اتوار کو کابل میں ایک ریکارڈد ویڈیو میں کہا کہ ہم افغانستان میں جن لوگوں کی خدمت کررہے ہیں ان میں سے ہزاروں کو امداد پہنچانے سے قاصر ہیں ۔ وہاں بارشیں ہیں ، برفباری ہے اور پریشان کن حالات ہیں ۔ لیکن اگر ہم تمام افغان روایتی اقدار کے مطابق صرف خواتین کارکنوں کے ساتھ اپنی کارروائیاں بحال کر سکیں تو ہم دوبارہ کام شروع کر سکتے ہیں اور مجھے امید ہے کہ ہم جلد کوئی حل تلاش کر لیں گے ۔
ان کا کہنا ہے ہمیں تمام عملے کے ساتھ دوبارہ کام شروع کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے، کیونکہ اگر ضرورت مند خاندانوں تک امداد نہ پہنچی تو بہت سی جانیں ضائع ہو جائیں گی۔
24 دسمبر کو خواتین کارکنوں پر پابندی کے حکم نامے نفاذ کے بعد سے وہ اس بڑے فلاحی ادارے کے پہلے سر براہ ہیں جو افغانستان کا دورہ کر رہے ہیں۔
اس سے قبل این آر سی کے سربراہ ایگلینڈ نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ہمارے دفتر تقریباً خالی ہو چکے ہیں اور پورے افغانستان میں تمام کارروائیاں مفلوج ہو چکی ہیں ۔ خواتین اور مرداسٹاف کے بغیر ہم اپنی اہم امدادی کارروائی بحال نہیں کر سکتے ۔ ہم خواتین عملے کے بغیر عورتوں اور بچوں تک نہیں پہنچ سکتے ۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ان کا ادارہ لباس ، سفر اور کام کی جگہ سے متعلق افغانستان کی تمام روائتی اقدار کا احترام کرتا ہے
انہوں نے کہا کہ این آر سی کی 469 خواتین رفقائے کار خاص طور پر ثقافتی طور پر حساس پہلووں کے پیش نظر سات لاکھ افغان لوگوں تک ادارے کی اہم امداد پہنچانے کے لیے ضروری ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ ہمیں تمام اسٹاف کے ساتھ کام دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے وگرنہ زندگیوں کا نقصان ہوگا۔
این آر سی گزشتہ سال افغانستان میں پانی ، حفظان صحت ،پناہ گاہ اور تعلیم کے شعبوں میں تقریباً ساڑھے آٹھ لاکھ لوگوں کی مدد کر چکا ہے ۔
طالبان اگست 2021 میں اقتدار میں واپسی کے بعد سے خواتین کی زندگیوں پر سخت پابندیاں عائد کر چکے ہیں ۔ انہوں نے خواتین کو بہت سی کام کی جگہوں پر کام کرنے اور یونیورسٹیوں اور سیکنڈری اسکولوں میں جانے سے روک دیا ہے ۔
طالبان حکومت کے اعلیٰ تعلیم کے لیے قائم مقام وزیر ندا محمد ندیم نے افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے نائب خصوصی مندوب مارکس پوٹزل سے ملاقات میں کہا کہ ان کی حکومت نے خواتین کی تعلیم پر مکمل پابندی کا فیصلہ نہیں کیا ہے بلکہ بیرونی عوامل کی وجہ سے اس معاملے کو مؤخر کر دیا ہے۔
مارکس پوٹزل نے گزشتہ تین دنوں میں ملا برادر سمیت کئی سینئر طالبان عہدیداروں سے ملاقات کی ہے اور خواتین کی تعلیم اور این جی اوز میں کام پر پابندیوں کے اثرات پر تبادلہ خیال کیا ہے ۔
اقوام متحدہ کی چیف کمیونیکیٹر میلیسا فلیمنگ نے حال ہی میں اپنے تبصروں میں کہا تھا کہ ملک کےڈی فیکٹو حکام کا خواتین کو عوامی زندگی سے بتدریج خارج کرنے اور ان کے کردار سے انکار خود کو نقصان پہنچانے کی ایک غیر معمولی کارروائی ہے۔
طالبان عہدے داروں کے ساتھ پوٹزل کی گفتگو ایسے میں ہوئی ہے جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس غربت زدہ ملک میں انسانی ہمدردی سے متعلق افغان امدادی کارکنوں پر پابندی کے بارے میں بحث کے لیے 13 جنوری کو پرائیویٹ طور پر میٹنگ کی تیاری کر رہی ہے ۔
پوٹزل نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فروغ سے متعلق طالبان کے وزیر سے اتوار کے روز اپنی تازہ ترین ملاقات کی ۔
پوٹزل کے دفتر نے ان کے حوالے سے بتایا کہ انہوں نے محمد خالد حنیف سے کہا ہے کہ طالبان کی جانب سے خواتین کے خلاف تازہ ترین امتیازی پابندیاں افغان لوگوں تک زندگی بچانے والی امداد کو روکنے کا باعث بن رہی ہیں او ر ان سے افغان معیشت متاثر ہو گی ۔
SEE ALSO: افغان طالبان کا نیا اقدام؛ این جی اوز میں خواتین کے کام کرنے پر پابندی عائدگزشتہ ماہ ، سخت گیر حکمرانوں نے افغان خواتین عملے کو قومی اور بین الاقوامی غیر سرکاری اداروں کے ساتھ اچانک کام کرنے کی ممانعت کرتے ہوئے کہا کہ وہ سرکاری احکامات کے مطابق سرپر اسکارف نہیں پہن رہیں ۔
اقوام متحدہ کے عہدے داروں نے کہا ہے کہ اس اقدام سے ایک ایسے ملک میں جہاں لوگوں کو ہنگامی امداد کی ضرورت ہے انسانی ہمدردی کے بیسیوں پروگرام موثر طور پر معطل ہو گئے ہیں ۔
این آر سی گزشتہ سال افغانستان میں پانی ، حفظان صحت ،پناہ گاہ اور تعلیم کے شعبوں میں تقریباً ساڑھے آٹھ لاکھ لوگوں کی مدد کر چکا ہے ۔
طالبان اگست 2021 میں اقتدار میں واپسی کے بعد سے خواتین کی زندگیوں پر سخت پابندیاں عائد کر چکے ہیں ۔ انہوں نے خواتین کو بہت سی کام کی جگہوں پر کام کرنے اور یونیورسٹیوں اور سیکنڈری اسکولوں میں جانے سے روک دیا ہے ۔
SEE ALSO: افغانستان: خواتین پر یونیورسٹیز کے دروازے بند کرنے پر طالبان کو تنقید کا سامناخواتین کو عوامی پارکس، اور دوسرے عوامی مقامات میں جانے کی اجازت نہیں ہے اور انہیں عوامی مقامات پر اپنے چہرے ڈھانپنے کا حکم ہے ۔
اقوام متحدہ کے عہدے دار فلیمنگ نے یہ بھی کہا ہے کہ کوئی بھی ملک اپنی نصف آبادی کو معاشرے سے خارج نہیں کر سکتا ۔ خواتین اور لڑکیاں افغانستان کے مستقبل کے لئے اہم ہیں ۔
طالبان اپنے طرز حکومت اور پالیسیوں پر تنقید کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر چکے ہیں کہ یہ اقدامات افغان ثقافت اور اسلامی قانون یا شریعت کے عین مطابق ہیں ۔
(وی او اے نیوز)