رسائی کے لنکس

افغانستان: خواتین پر یونیورسٹیز کے دروازے بند کرنے پر طالبان کو تنقید کا سامنا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے خواتین کے لیے یونیورسٹیز کے دروازے بند کرنے پر اُنہیں عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔

امریکہ، پاکستان، برطانیہ، قطر اور اقوامِ متحدہ سمیت انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے طالبان کے اس اقدام پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

وائس آف امریکہ افغان سروس کے مطابق طالبان نے نجی اور سرکاری جامعات کے داخلی راستوں پر اضافی سیکیورٹی تعینات کر دی ہے، تاکہ پابندی کے باوجود یونیورسٹیز میں داخلے کی کوشش کرنے والی طالبات کو روکا جا سکے۔

ایک طالبہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ درجنوں طالبان جنگجوؤں نے اُن سمیت دیگر طالبات کو کابل یونیورسٹی کیمپس میں داخلے سے روک دیا۔

طالبان کی وزارتِ تعلیم نے منگل کو ایک حکم نامہ جاری کر کے جامعات سمیت اعلیٰ تعلیم کے دیگر تعلیمی اداروں میں تاحکم ثانی طالبات کو داخل ہونے سے روک دیا تھا۔

امریکہ، پاکستان اور انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت اقوامِ متحدہ کا اظہارِ تشویش

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے طالبان کے اس اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کا یہ شرمناک اقدام ہے جو افغانستان میں خواتین کو تعلیم کے بنیادی حق سے محروم کر دے گا۔

ہیومن رائٹس واچ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ طالبان آئے روز اپنے اس نوعیت کے اقدامات سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ وہ افغان عوام بالخصوص خواتین کے حقوق کا احترام نہیں کر رہے۔

پاکستان نے بھی طالبان حکومت کے اس اقدام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ طالبان خواتین کو جامعات جانے سے روکنے کے فیصلے پر نظرِ ثانی کریں۔

قطر نے بھی طالبان حکومت کے اس اقدام پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

خیال رہے کہ قطر وہ ملک ہے جس نے افغان طالبان کو اپنے دارالحکومت دوحہ میں اپنا سیاسی دفتر قائم کرنے کی اجازت دی تھی جب کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے کئی ادوار بھی یہاں ہوئے تھے۔

امریکہ کے اقوام متحدہ میں ڈپٹی سفیر رابرٹ ووڈ نے ایک بیان میں کہا کہ ’’طالبان بین الاقوامی برادری کے باضابطہ رکن بننے کی توقع تب تک نہیں کر سکتے جب تک وہ تمام افغان شہریوں، خصوصاً خواتین اور لڑکیوں کے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا احترام نہیں کرتے۔‘‘

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ سیکریٹری جنرل کو افغان طالبان کی جانب سے خواتین کو یونیورسٹیز میں جانے سے روکنے پر تشویش ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ خواتین کی تعلیم کا راستہ روکنا نہ صرف ان کے حقوق کی پامالی ہے بلکہ ملک کے مستقبل پر بھی اس کے بھیانک اثرات مرتب ہوں گے۔

افغانستان میں برطانیہ کے ناظم الامور ہوگو شارٹر نے بھی طالبان حکومت کے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔

اپنی ٹوئٹ میں اُن کا کہنا تھا کہ یہ افغان عوام ملک کی معاشی صورتِ حال اور استحکام کے لیے بڑا دھچکہ ہے۔

طالبان حکمرانوں کی جانب سے یونیورسٹی کی تعلیم تک خواتین کی رسائی روکنے کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’ ہم افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم کے حق پر اس نئے حملے کی مذمت کرتے ہیں۔ خواتین پر یونیورسٹیوں کے دروازے بند کرنا غلط جانب ایک بڑا قدم ہے جو خواتین اور ملک کے مستقبل کو تباہ کر دے گا۔ہم طالبان حکام سے فوری طور پر یہ اور اس نوعیت کی دوسری پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

اپنے بیان میں ان کا مزید کہنا تھا کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے افغانستان کئی دہائیوں سے مشکلات کا شکار رہا ہے۔ ملک کو ترقی دینے کے لیے ضروری ہے کہ طالبان حکام آبادی کے ہر حصے کی تعلیمی ضروریات کی ذمہ داری قبول کریں۔

ٹرنر نے بین الاقوامی برداری پر بھی زور دیا ہے کہ وہ افغانستان کے لیے انسانی اور تعلیم سے متعلق امداد کی فراہمی جاری رکھے اور طالبان کے اقدامات کی اجتماعی سزا طالب علموں اور کمزور طبقوں کو نہ دے۔

خیال رہے کہ طالبان نے امریکہ کے ساتھ فروری 2020 میں طے پانے والے دوحہ معاہدہ میں وعدہ کیا تھا کہ وہ افغانستان میں انسانی حقوق کی پاسداری کریں گے جب کہ خواتین کی تعلیم کی بھی مخالفت نہیں کریں گے۔

گزشتہ برس اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے خواتین کی تعلیم پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے پہلے لڑکیوں کے لیے سیکنڈری اسکولز بند کیے جس کے بعد اب طالبات کے جامعات میں داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔

طالبان کی اعلیٰ تعلیم کی وزارت کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹیوں کے نصاب کو شریعہ کے مطابق ڈھالنے کے بعد انہیں جلد ہی دوبارہ کھول دیا جائے گا۔

XS
SM
MD
LG