افغانستان کے مغربی صوبے ہرات میں جمعے کو رات گئے ہونے والے کار بم دھماکے میں آٹھ افراد ہلاک اور 47 زخمی ہوئے ہیں۔
وزارتِ داخلہ کے ترجمان رفیق شیر زائی کے مطابق بم دھماکے میں افغان سیکیورٹی فورسز کا ایک اہلکار ہلاک اور 11 اہلکار زخمی ہوئے۔ جب کہ دھماکے کی زد میں آنے والوں میں کئی عام شہری بھی شامل تھے۔ جن میں خواتین اور بچے بھی تھے۔
امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق دھماکے میں زخمی ہونے والے چند زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
دھماکے کی ذمہ داری کسی تنظیم کی طرف سے قبول نہیں کی گئی۔
رپورٹس کے مطابق دھماکے کے چند گھنٹوں بعد ہی اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی طرف سے افغانستان میں بڑھتی پر تشدد کارروائیوں کی مذمت کی گئی۔ جن میں افغان حکام اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے باوجود اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔کونسل کا جاری کردہ بیان میں کہنا ہے کہ افغانستان میں ہونے والی ان کارروائیوں میں سرکاری اہلکاروں، جج، صحافیوں، طبی عملے، سماجی ورکرز اور اہم عہدوں پر تعینات خواتین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جو کہ انسانی اور اقلیتی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
افغانستان میں ہونے والے اکثر دھماکوں کی ذمہ داری شدت پسند گروپ ‘داعش’ کی طرف سے قبول کی جاتی رہی ہے۔ جب کہ طالبان اور افغان حکام کی طرف سے ان دھماکوں کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھیرایا جاتا ہے۔
افغان حکام اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری مذاکرات میں سست روی کی وجہ سے امریکہ کی طرف سے گزشتہ ہفتے ترکی میں ایک عالمی کانفرنس کے انعقاد کی تجویز دی گئی تھی۔
دوسری طرف امریکہ، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں طالبان سے طے پائے جانے والے معاہدے پر نظر ثانی کر رہا ہے جس کے مطابق رواں سال یکم مئی تک افغانستان میں تعینات امریکہ کے باقی 2500 اہلکاروں کا انخلا ہونا ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن کا افغان صدر اشرف غنی کو گزشتہ ہفتے کے آخر میں لکھے گئے خط میں کہنا تھا کہ افغانستان سے فوج کے انخلا سمیت تمام آپشنز موجود ہیں۔
خیال رہے کہ امریکہ اور طالبان میں گزشتہ سال 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کے کئی ادوار کے بعد امن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
معاہدے کے تحت امریکہ نے افغان جیلوں میں قید طالبان جنگجوؤں کی رہائی سمیت مئی 2021 تک افغانستان سے امریکی اور اتحادی فوج کے مکمل انخلا پر اتفاق کیا تھا۔
طالبان نے امریکہ کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ افغان سرزمین کو امریکہ یا اس کے اتحادی ملکوں کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
طالبان نے یہ بھی یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ القاعدہ سمیت افغانستان میں دیگر دہشت گرد گروہوں سے روابط بھی نہیں رکھیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امن معاہدے کے تحت مارچ 2020 میں بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہونا تھا جو کئی ماہ کی تاخیر کے بعد ستمبر میں شروع ہوئے تھے۔ لیکن ان میں کوئی خاص پیش رفت ہونے کے بجائے افغانستان میں تشدد میں اضافہ دیکھا گیا۔
تشدد میں اضافے اور طالبان کے القاعدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں سے مبینہ طور پر اپنے روابط برقرار رکھنے کے الزامات کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے جنوری میں دوحہ معاہدے پر نظرِ ثانی کا عندیہ دیا تھا۔