افغان سیکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان عید الفطر کے موقع پر ہونے والی تین روزہ جنگ بندی ختم ہونے کے بعد فریقین کے درمیان ایک مرتبہ پھر لڑائی کا آغاز ہو گیا ہے۔
افغان فوج نے تصدیق کی ہے کہ ملک کے جنوبی صوبۂ ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ کے قریب سیکیورٹی فورسز نے 'انسداد دہشت گردی' کے آپریشن کا آغاز کیا ہے۔
فوج کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ آپریشن کے دوران طالبان کے اہم کمانڈر سمیت 20 طالبان ہلاک ہوئے ہیں۔ البتہ طالبان حکام نے جنگ بندی کے بعد افغان فورسز کے آپریشن اور ہلمند کی صورتِ حال پر کوئی ردِعمل نہیں دیا۔
واضح رہے کہ رمضان کے اختتام پر طالبان نے عید پر تین روزہ جنگ بندی کا اعلان کیا تھا جس پر افغان حکومت نے بھی رضامندی ظاہر کی تھی۔
تاہم فریقین کی جانب سے اتوار کو ایک دوسرے پر عید کے تینوں دن جنگ بندی کی خلاف ورزی کرنے اور اس کے باعث شہریوں کی ہلاکت کا الزام عائد کیا جاتا رہا تھا۔
طالبان اور افغان فورسز کے درمیان تین روزہ جنگ بندی کے باوجود 14 مئی کو کابل کے مضافات میں ایک مسجد میں دھماکے کے نتیجے میں امام مسجد سمیت کم از کم 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
تاہم عسکریت پسند تنظیم داعش کی جانب سے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ گروپ نے کابل میں متعدد الیکٹرک گرڈ اسٹیشنز کو بھی دھماکے سے اڑانے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
SEE ALSO: کابل کی مسجد میں دھماکے سے امام مسجد سمیت بارہ ہلاک، امریکی فوج کا انخلاٗ جاریگرڈ اسٹیشنز کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے کابل شہر اور صوبے کے اطراف کے علاقے تاریکی میں ڈوب گئے تھے۔
ہفتے کو افغان صدر اشرف غنی نے جنگ بندی کے بعد کی صورتِ حال پر بات کرتے ہوئے فوجی کمانڈروں کو بذریعہ ویڈیو لنک کہا تھا کہ ''اگر طالبان جنگ بندی ختم کر کے دوبارہ لڑائی شروع کرتے ہیں تو آپ کو بھی اپنی سرزمین اور لوگوں کے تحفظ کے لیے تیار رہنا چاہیے۔''
اس سے قبل جمعے کو طالبان مذاکرات کار نے قطر میں افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم سے ایک ملاقات کی تھی۔
ملاقات کے بعد سامنے آنے والے بیانات میں فریقین نے عید کے بعد بین الافغان امن مذاکرات کو شروع کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
یاد رہے کہ افغان فریقین کے درمیان مذاکرات کا آغاز گزشتہ برس ستمبر میں قطر کے درالحکومت دوحہ میں ہوا تھا۔
SEE ALSO: عیدالفطر پر طالبان اور افغان فورسز کے درمیان تین روزہ جنگ بندیافغان طالبان، افغان حکومت اور افغان عمائدین کے درمیان بین الافغان امن مذاکرات کا آغاز گزشتہ برس فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں طے پانے والے امن معاہدے کے تحت ہوا تھا۔
مذکورہ معاہدے میں افغان جنگ کے خاتمے کے لیے ایک روڈ میپ پر اتفاق کیا گیا تھا جس میں یکم مئی 2021 تک غیر ملکی افواج کا افغانستان سے انخلا، قیدیوں کے تبادلے کے علاوہ طالبان کی جانب سے غیر ملکی افواج کو نشانہ نہ بنانے، بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں سے روابط نہ رکھنے اور افغان سرزمین کے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہ ہونے کی ضمانت دینا شامل تھا۔
البتہ امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے گزشتہ ماہ سامان کی ترسیل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان سے افواج کا انخلا 11 ستمبر 2021 تک مکمل کرلیا جائے گا۔
طالبان نے انخلا کے عمل میں تاخیر کو مسترد کرتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ وہ اپنے حملوں کو جاری رکھ سکتے ہیں۔