افغانستان میں بہار کے موسم کی آمد کے ساتھ ہی طالبان مخالف گروہ ملک بھر کے مختلف مقامات پر متحرک ہو رہے ہیں۔ بعض مبصرین کے مطابق داعش نے حال ہی میں دو دہشت گرد حملے کیے ہیں اگر دیگر گروہ بھی منظم حملے شروع کرتے ہیں تو افغانستان میں آٹھ ماہ سے حکومت کرنے والے طالبان کے لیے اقتدار میں رہنا مشکل ہو سکتا ہے۔
حالیہ ہفتوں میں آدھ درجن کے قریب ایسے گروہ سامنے آئے ہیں جن کے بارے میں پہلے معلومات موجود نہیں تھیں۔ ان گروہوں نے قومی مزاحمتی محاذ کے ساتھ مل کر طالبان کے ساتھ لڑنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
ان نئے گروہوں میں کچھ نام افغانستان فریڈم فرنٹ اور افغانستان اسلامک نیشنل اور لبریشن موومنٹ شامل ہیں۔ لیکن سوشل میڈیا پر اعلانات کے علاوہ ان گروہوں کی جنگی قوت کے بارے میں کم معلومات موجود ہیں۔
ان گروہوں پر تحقیق کرنے والے ماہرین کے مطابق اگرچہ یہ سارے گروہ طالبان سے لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن ان میں اتحاد اور تعاون ناپید ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو واپسی کے لیے چار دن کی مہلت'انسٹی ٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف وار' میں بطور محقق کام کرنے والے پیٹر ملز نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ طالبان کی حکومت کا مقابلہ کرنے کے لیے ان گروہوں کو اتحاد اور تعاون پیدا کرنا ہوگا۔
سینٹر فار نیول انالسز کے کاؤنٹرنگ تھریٹس اینڈ چلنجز پروگرام کے ڈائریکٹر جوناتھن شروڈن کے مطابق طالبان مخالف گروہ کی جانب سے ایک بڑی مزاحمتی تحریک شروع کرنے میں ناکامی کی بڑی وجہ ان کے درمیان تعاون کا فقدان ہے۔
ان کے بقول، " تعاون میں کمی سمیت ان گروہوں کو بیرونی امداد بھی حاصل نہیں۔ نوے کی دہائی کے برعکس جب روس، بھارت اور ایران طالبان کے مقابلے میں شمالی اتحاد کی پشت پناہی کر رہے تھے کسی بھی ملک نے اس بار طالبان مخالف مزاحمت کی عملاً حمایت نہیں کی۔"
Your browser doesn’t support HTML5
واضح رہے کہ 15 اگست 2021 کو جب طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا تو انہیں ملک کے 34 صوبوں میں سے صرف پنجشیر میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اسی کی دہائی میں سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے کے دوران جنگجووں کو 10 برس تک پنجشیر کے علاقے میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کی قیادت احمد مسعود کے والد احمد شاہ مسعود نے کی تھی۔ گزشتہ برس بھی پنجشیر میں مزاحمتی اتحاد کے سربراہ احمد مسعود نے مزاحمت جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا تھا تاہم طالبان نے چند ہی روز میں پنجشیر کو فتح کر لیا تھا۔
لی شروڈن کے مطابق بہتر طور پر مسلح اور تعداد میں بھی کثیر طالبان کے لیے مذکورہ گروہ معمولی پریشانی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں۔
طالبان نے ملک میں حکومت مخالف گروہوں کی موجودگی کو اپوزیشن کی جانب سے پروپیگنڈا قرار دیا ہے۔
SEE ALSO: افغان طالبان کا نیا حکم؛ یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کی تدریس کے لیے الگ الگ دن مخصوصبعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ طالبان مخالف گروہ فی الحال معمولی اہمیت رکھتے ہیں لیکن مستقبل میں کوئی بھی مزاحمتی گروہ طاقت حاصل کر سکتا ہے۔
شروڈن کے مطابق طویل دورانیے میں کئی پہلو اہم ہو سکتے ہیں جن میں ان گروہوں کو بیرونِ ملک سے مدد کا مل جانا، ان کا آپس میں تعاون کر کے طالبان کے خلاف ایک متحدہ محاذ قائم کرنا اور طالبان کے اقتدار کے خلاف عوامی طور پر بے چینی کا پھیلنا بھی شامل ہے۔