فضل نے پچھلے مہینے تین ہزار ڈالر کے عوض اپنی 13 اور 15 سال کی دو بیٹیاں ایسے افراد سے بیاہ دیں، جو عمر میں ان سے دو گنا بڑے تھے۔
فضل افغانستان میں اینٹوں کے ایک بھٹے میں مزدوری کرتا ہے۔ مگر طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے وہ بے روزگار ہے۔ اس کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں اور سر پر قرضے کا بھاری بوجھ ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ میرے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا کہ میں رقم لے کر اپنی بیٹیاں بیاہ دوں یا پھر پورا کنبہ فاقوں سے مر جائے۔
فضل کا کہنا ہے کہ رقم ختم ہونے تک اگر مزدوری نہ ملی تو وہ اپنی تیسری بیٹی کو بھی بیاہ دے گا، جو اس وقت صرف 9 سال کی ہے۔
یہ کہانی صرف فضل کی نہیں ہے۔ افغانستان میں ایسے لوگوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے جن کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا اور وہ فاقہ کشی پر مجبور ہو رہے ہیں۔
طالبان کا 100 دن کا اقتدار اور افغانستان
افغانستان کا کنٹرول سنبھالے ہوئے طالبان کو 100 دن ہو چکے ہیں۔ ان ایک سو دنوں میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ ملک کے اربوں ڈالر کے اثاثے بیرون ملک منجمد ہیں۔ بین الاقوامی امدادی اداروں کی امدادی سرگرمیاں رک چکی ہیں۔ ملک میں بینکنگ کا نظام کام نہیں کر رہا، کیونکہ اس کے رابطے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے منقطع ہیں۔ جب تک بیرونی دنیا طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتی، رقوم کا لین دین شروع ہونے کا امکان نہیں ہے۔
اس وقت افغانستان کا سب سے بڑا مسئلہ نقدی کا ہے۔ رقم نہ ہونے کی وجہ سے معیشت کا پہیہ رک گیا ہے۔کاروبار بند ہوتے جا رہے ہیں۔ لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں۔ جن کا روزگار ختم نہیں ہوا، انہیں مہینوں سے تنخواہیں نہیں مل رہیں، کیونکہ اداروں اور آجروں کے پاس تنخواہیں دینے کے لیے رقم نہیں ہے۔
SEE ALSO: افغانستان میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ نقدی ہے، ریڈ کراسدن بدن بگڑتے ہوئے حالات ملک کو تیزی سے ابتری کی جانب دھکیل رہے ہیں اور فاقہ کشی کی دلدل میں پھنسے ہوئے لوگوں کو اپنے بچے بیچنے کے سوا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔
بھوک نے والدین کو کم سن بچیاں بیاہنے پر مجبور کر دیا ہے
افغانستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن واشما فروغ کہتی ہیں کہ یہ کہانیاں سن کر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ یہ شادی نہیں ہے۔ یہ بچیوں کے ساتھ ریپ ہے۔
فروغ کا کہنا ہے کہ اس طرح کی کہانیاں میں ہر روز سنتی ہوں۔ بعض واقعات میں تو لڑکی کی عمر دس سال سے بھی کم ہوتی ہے۔
اگرچہ کم عمری کی شادیاں افغانستان میں کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن ملک کے معاشی حالات خراب ہونے کے بعد اس طرح کی شادیوں میں دوگنے سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے ایسی مصدقہ رپورٹس موجود ہیں کہ لوگ رقم کے عوض انتہائی کم عمر بچیوں کو بھی بیاہ رہے ہیں۔ ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں جن میں بچی کی عمر محض 20 دن تھی۔
دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران منڈلا رہا ہے
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ معاشی ابتری میں گھرے ہوئے افغانستان میں دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران جنم لے رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اب جب کہ سردیوں کا آغاز ہو چکا ہے، ملک تیزی سے قحط کی جانب بڑھ رہا ہے اور 2022 کے وسط تک افغانستان کے 97 فی صد گھرانے خط غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔
فروغ نے خبررساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ لوگ غربت کی وجہ سے بھی اپنی بچیوں کی کم عمری میں شادی کر دیتے ہیں۔ اس کے دو مقصد ہوتے ہیں، ایک یہ کہ گھر میں ایک فرد کم ہو جاتا ہے اور اس کا پیٹ بھرنے کی فکر نہیں کرنی پڑتی اور دوسرا یہ کہ لڑکی کا ہاتھ دینے کے بدلے میں کچھ رقم بھی مل جاتی ہے، جو عمومی طور پر 500 ڈالر سے لے کر 2000 ڈالر تک ہوتی ہے۔ رقم کا انحصار لڑکی کی خوبصورتی اور عمر پر ہوتا ہے۔ لڑکی جتنی خوبصورت اور کم عمر ہو گی، رقم اتنی ہی زیادہ ملتی ہے۔
قرض کے بدلے میں کم سن بیٹی کی شادی
فروغ نے بتایا کہ بعض صورتوں میں لوگ اپنے قرض کے بدلے میں بھی بیٹی بیاہ دیتے ہیں۔ انہوں نے ایک واقعہ کا ذکر کیا کہ ایک شخص کچھ عرصے سے مکان کا کرایہ ادا نہیں کر پا رہا تھا۔ بالآخر کرائے کی ادائیگی کا تصفیہ اس بات پر ہوا کہ اس نے اپنی 9 سال کی بیٹی کا بیاہ مالک مکان سے کر دیا۔
ایک اور واقعہ کے متعلق انہوں نے بتایا کہ ملک کے شمالی مشرقی حصے میں ایک شخص اپنے پانچ بچوں کو مسجد میں چھوڑ کر غائب ہو گیا، کیونکہ وہ ان کا پیٹ نہیں بھر سکتا تھا۔ ان میں سے تین لڑکیاں تھیں، جن کی عمریں 13 سال سے کم تھیں۔ وہاں کے لوگوں نے اسی دن ان تینوں کی شادی کر دی۔
فروغ غریب خواتین اور کم عمر لڑکیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم 'وومن اینڈ پیس اسٹڈیز آرگنائزیشن' کی بانی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ عرصے میں قحط کی وجہ سے لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، کیونکہ لوگوں کے پاس اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کچھ باقی نہیں بچا۔
ان کا کہنا تھا کہ کم عمری کی شادیوں کی اجازت نہ تو مذہب دیتا ہے اور نہ ہی قانون میں اس کی گنجائش ہے۔ یہ مکمل طور پر غیر قانونی ہے۔
کم عمری کی شادیاں روکنے کے لیے یونیسیف کا نقدی پروگرام
یونیسیف نے کہا ہے کہ اس نے افغانستان میں نقدی فراہم کرنے کا ایک پروگرام شروع کیا ہے، جس کا مقصد ان خاندانوں کی مدد کرنا ہے جو بھوک کی وجہ سے اپنی بیٹیوں کی شادی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ یونیسیف اس سلسلے کو روکنے کے لیے مقامی نکاح خواںوں سے بھی بات کر رہا ہے۔ عالمی ادارے کی کوشش ہے کہ مذہبی رہنماؤں کو کم عمری کی شادیوں کی حوصلہ شکنی کرنے پر قائل کیا جائے۔
طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے افغانستان میں شادی کے لیے کم سے کم عمر مقرر کی گئی تھی جو لڑکیوں کے لیے 16 سال تھی، جب کہ عالمی سطح پر یہ حد کم ازکم 18 سال ہے۔
غریبوں کے قرضوں کے گورکھ دھندے
بھٹہ مزدور فضل نے بتایا کہ اس کی مالی پریشانیوں کا آغاز اس وقت ہوا جب بھٹے میں کام بند ہو گیا۔ بھٹے پر کام کے آغاز سے قبل مالک مزدورں کو چھ ماہ کی مزدوری پیشگی ادا کر دیتا تھا جو ایک ہزار ڈالر کے برابر ہے۔
لیکن جب تعمیراتی سرگرمیاں رکنے سے بھٹے پر کام شروع نہ ہو سکا تو مالک نے تمام مزدوروں سے مطالبہ کیا کہ وہ پیشگی رقم واپس کر دیں۔ لیکن فضل اس رقم کا زیادہ تر حصہ اپنی بیمار بیوی کے علاج پر خرچ کر چکا تھا۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ صرف فضل کو ہی اس پریشانی کا سامنا نہیں ہوا بلکہ کئی دوسرے بھٹہ مزدورں کو اپنی پیشگی مزدوری واپس کرنے کے لیے اپنی بیٹیاں بیاہنا پڑیں۔
افغانستان کے تازہ ترین اعداد و شمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ 28 فی صد لڑکیوں کی شادی 18 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہو جاتی ہے، جب کہ 4 فی صد لڑکیاں اپنی شادی کے وقت 15 سال سے کم عمر ہوتی ہیں۔
قحط کے نتیجے میں 50 فی صد لڑکیاں کم عمر میں بیاہی جائیں گی
فروغ اور خواتین کے حقوق کی ایک اور سرگرم کارکن جمیلہ افغانی نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر ملک میں معاشی بحران جاری رہا تو 18 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی مجبوراً 50 فی صد لڑکیاں بیاہ دی جائیں گی۔
کم عمری کی شادیوں کے اپنے مسائل ہیں۔ رپورٹس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں سے اکثر لڑکیوں کو جنسی تشدد، مارپیٹ، استحصال اور دوران حمل خطرناک نوعیت کی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جمیلہ افغانی کہتی ہیں کہ ان کی زندگیاں تباہ ہو جاتی ہیں۔ ان کی جسمانی اور جنسی صحت متاثر ہوجاتی ہے۔ وہ نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان میں اکثر لڑکیوں کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔
جمیلہ افغانی نے بتایا کہ ان کی تنظیم نے غزنی میں ایک ایسی شادی کو روکا جس میں 538 ڈالر کے عوض ایک نو سالہ بچی کا ہاتھ ایک ایسے مرد کو تھمایا جا رہا تھا جس کی عمر 30 سال سے زیادہ تھی۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپس کا کہنا ہے کہ طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد لڑکیوں کے ہائی اسکول بند کر دیے ہیں جس سے لڑکیاں گھروں میں بیٹھ گئی ہیں اور والدین کو ان کی شادی کی فکر ستانے لگی ہے۔
اگرچہ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ آخرکار لڑکیوں کے اسکول کھول دیں گے، لیکن انہوں نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ کب اور کن شرائط پر لڑکیوں کو دوبارہ اسکول جانے کی اجازت ہو گی۔
عطیہ دینے والے عالمی ادارے اپنی سرگرمیاں شروع کرنے سے قبل یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ طالبان لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کا احترام کریں گے۔ مگر قحط شرائط پوری ہونے کا انتظار نہیں کرتا اور اس کا سامنا عام لوگوں کو کرنا پڑتا ہے۔
(خبر کا مواد رائیٹرز سے لیا گیا ہے)