سندھ ہائی کورٹ نے نو مسلم لڑکی آرزو فاطمہ کی کم عمری کے باعث شادی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ملزمان کے خلاف 'انسدادِ چائلڈ میرج ایکٹ' کے تحت مقدمہ درج کر کے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے اپنے حکم میں قرار دیا ہے کہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے سرٹیفکیٹ کے مطابق آرزو فاطمہ کی تاریخ پیدائش 31 جولائی 2007 درج ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی کی عمر 14 سال کے لگ بھگ ہے۔ اسی طرح سینٹ انتھونی ہائی اسکول جہاں بچی زیر تعلیم تھی، کی جانب سے پیش کردہ ریکارڈ کے مطابق بھی بچی کی عمر 14 سال ہی ہے۔
عدالت کے مطابق لڑکی کے والد کی جانب سے جمع کرائے گئے حلف نامے اور پھر میڈیکل بورڈ کی رپورٹ میں بھی لڑکی کی عمر 14 سال قرار پائی ہے۔
خیال رہے کہ کراچی کے علاقے ریلوے کالونی کی مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے راجہ لعل نے عدالت میں درخواست دی تھی کہ اس کی نو عمر بیٹی کا مذہب زبردستی تبدیل کرا کر اس کے 44 سالہ ہمسایے نے اس سے شادی کر لی ہے۔
پیر کو ہونے والی سماعت میں عدالتی حکم پر قائم کیے گئے میڈیکل بورڈ نے بھی اپنی رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ سات نومبر کو آرزو فاطمہ کو سروسز اسپتال میں میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش کیا گیا۔
میڈیکل بورڈ نے آرزو فاطمہ کے تین مختلف زاویوں سے ایکسرے کرائے اور اس کے نتیجے میں آنے والی تمام رپورٹس کا جائزہ لیا گیا۔ میڈیکل بورڈ نے اپنی رپورٹ میں آرزو فاطمہ کی عمر 14 سے 15 سال کے درمیان قرار دی۔
ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ ان شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ لڑکی کی عمر 18 سال سے کم ہے جو سندھ انسداد چائلڈ میریج ایکٹ کے تحت اپنی مرضی سے شادی کرنے کی عمر 18 سال سے کم ہے۔
اس طرح یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آرزو فاطمہ، علی اظہر سے قانون کی روشنی میں شادی نہیں کر سکتیں اور نہ ہی اس کے ساتھ آرزو کو واپس بھیجا جا سکتا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ کے دور کنی بینچ نے سماعت کے بعد جاری کیے گئے اپنے حکم میں کہا کہ حقائق کی روشنی میں ایسا لگتا ہے کہ سندھ چائلڈ میریج ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لڑکی کی کم عمری میں شادی کی گئی ہے۔
عدالت نے کیس کے تفتیشی آفیسر کو حکم دیا کہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات کرتے ہوئے اسے چالان میں شامل کیا جائے اور اس پر ملزمان کے خلاف کیس چلایا جائے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ لڑکی کے والد نے ان افراد کی بھی نشان دہی کی ہے جو اس غیر قانونی شادی میں ملوث رہے ہیں۔
دوسری جانب دورانِ سماعت آرزو فاطمہ کے وکیل محمد رمضان تبسم نے یہ مؤقف اپنایا تھا کہ یہ شادی وفاقی حکومت کے قوانین کے تحت بالکل ٹھیک ہے، شرعی قوانین کے تحت لڑکی عاقل اور بالغ ہے اور اسلام میں شادی کے لیے بلوغت ہی شرط ہے۔
وکیل نے مؤقف اپنایا کہ آرزو فاطمہ نے بھری عدالت میں کہا کہ مجھ سے اسلام قبول کرنے میں کوئی زبردستی نہیں کی گئی اور وہ اپنے والدین کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے شوہر کے ساتھ جانا چاہتی ہے۔
تاہم عدالت نے اس نکتے کو کسی مناسب پلیٹ فارم پر اٹھانے کا حکم دیا کہ آئین میں کی گئی اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد صوبائی قوانین کو فوقیت حاصل ہے یا پھر وفاقی حکومت کے قوانین کو ہی برتری حاصل رہے گی۔
عدالت نے درخواست گزار آرزو فاطمہ کی جانب سے والدین کے ساتھ جانے پر انکار پر دوبارہ سرکاری پناہ گاہ میں ہی بھیجنے کا حکم دے دیا اور اسے اپنی مرضی کے لوگوں سے ملاقات کا بھی حق دے دیا گیا ہے۔
تاہم اسے اپنے مبینہ شوہر علی اظہر سے ملاقات کی اجازت نہیں ہو گی۔ اسی طرح پناہ گاہ کی انتظامیہ کو آرزو کے لیے اسکول کا سلسلہ دوبارہ جاری رکھنے اور اس کی حفاظت کو یقینی بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر تفتیشی افسر اور ایس ایس پی اینٹی وائلنٹ کرائم سیل کو ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر کیس کی تحقیقات سے متعلق پیش رفت رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے پولیس کو حکم دیا کہ تحقیقات کے دوران کیس بھی فریق کو ہراساں کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔
دریں اثنا پولیس نے اغوا کے کیس میں آرزو فاطمہ سے شادی کرنے والے علی اظہر کو جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا جہاں تفتیشی افسر نے ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں 16 نومبر تک توسیع کی درخواست کرتے ہوئے بتایا کہ کیس میں چار مفرور ملزمان جس میں نکاح خوان اور گواہ بھی شامل ہیں جنہیں گرفتار کرنا ابھی باقی ہے۔
مفرور ملزمان میں نکاح خواں قاضی عبدالرسول، گواہان دانش، حبیب اور جنید شامل ہیں۔ اسی کیس میں مزید دو ملزمان ضمانت پر بھی ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق کیس میں عدالتی حکم پر کم عمری میں شادی کی ممانعت کے قوانین کے تحت بھی شقیں شامل کر لی گئی ہیں۔
کیس کا پس منظر
کراچی کی ریلوے کالونی کی رہائشی آرزو کے والد راجہ لعل کے مطابق ان کا تعلق مسیحی مذہب سے ہے، اور 'نادرا' کے ریکارڈ کے مطابق ان کی بیٹی کی تاریخ پیدائش 31 جولائی 2007 ہے جس کے تحت اس کی موجودہ عمر 13 سال 3 ماہ بنتی ہے۔
ان کا الزام ہے کہ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی کو ان کے 44 سالہ پڑوسی علی اظہر نے 12 اکتوبر کو بہلا پھسلا کر اغوا کیا، اس کا زبردستی مذہب تبدیل کرایا گیا جس کے بعد کم عمری کے باوجود اس سے شادی رچا لی گئی، اس طرح اُن کے مطابق یہ کیس اغوا کے ساتھ ریپ کا بھی ہے۔
آرزو کے والدین کے مطابق پولیس نے لڑکی کے لاپتا ہونے پر مقدمہ درج کرنے میں بھی شروع میں لیت و لعل سے کام لیا اور مقدمہ درج کرنے کی اگلی ہی تاریخ پر انہیں لڑکی کا نکاح نامہ اور تبدیلی مذہب کی سند دکھائی گئی۔
پولیس کی جانب سے لڑکی کی بازیابی میں مسلسل تاخیر پر لڑکی کے والدین نے سول سوسائٹی کو بھی واقعے سے آگاہ کیا، جس پر بھرپور احتجاج کیا گیا اور واقعہ میڈیا پر رپورٹ ہوا۔
واضح رہے کہ اغوا، ریپ کے سنگین جرائم کے ساتھ صوبہ سندھ میں 18 سال سے کم عمر میں شادی بھی جرم ہے اور اس جرم کے مرتکب افراد بشمول نکاح خواں کو قید کے ساتھ جرمانے کی سزائیں مقرر ہیں جب کہ ایسی شادی کی قانونی طور پر کوئی حیثیت نہیں ہے۔