پاکستان میں شادی کے لیے کم سے کم عمر کے تعین کا اختیار ریاست کے پاس ہونے سے متعلق وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو انسانی حقوق کی تنظیموں اور قانون سازوں کی جانب سے سراہا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور قانون سازوں کا کہنا ہے کہ ایسے فیصلے سے ملک میں یکساں طور پر شادی کی کم سے کم عمر متعین کرنے کے لیے قانون سازی کی راہ ہموار ہو گی جس سے کم عمر میں کی جانے والی شادیوں کی حوصلہ شکنی بھی ہو سکے گی۔
پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی کی سربراہی میں تین رُکنی بینچ نے ایک شہری کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ لڑکیوں کی شادی کے لیے کم سے کم عمر مقرر کرنا اسلام کے خلاف نہیں ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کم عمر بچوں کی شادی کی روک تھام سے متعلق 1929 کے قانون کے تحت لڑکیوں کی شادی کے لیے 16 برس کی عمر مقرر کرنے سے لڑکیوں کو بنیادی تعلیم حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔
پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سینئر رہنما سینیٹر شیری رحمٰن نے کا کہنا ہے کہ جس طرح سندھ میں شادی کے لیے لڑکیوں کے لیے کم از کم عمر 18 سال مقرر کی گئی ہے اس طرح ملک کے باقی حصوں میں بھی یہ عمر 18 سال کرنے کے ضرورت ہے۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ لڑکیوں کے لیے شادی کی کم سے کم عمر کی حد مقرر کرنا ان کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری ہے جو لڑکیوں اور خواتین کو اپنے شادی کے فیصلے کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں زچگی کے دوران فوت ہو جانے والی خواتین کی تعداد بہت زیادہ اور ہر تین گھنٹے میں زچگی کے عمل کے دوران ایک حاملہ خاتون دم توڑ دیتی ہے۔ کیوں کہ ان میں زیادہ تر تعداد ایسی لڑکیوں کی ہوتی ہے جن کی کم عمری میں شادی ہو جاتی ہے۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ کم عمری کی شادیوں کے رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے ریاست اور معاشرے کی سطح پر ایسے پیغامات دینے ضروری ہیں کہ کم عمری کی شادی قانونی طور پر نہیں کی جاسکتی ہے ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جن لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے انہیں نہ صرف اپنے فیصلے کرنے کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ انہیں صحتِ عامہ کی سہولیات تک مناسب رسائی نہ ہونے کے وجہ سے انہیں صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے تین رکنی بینچ نے فاروق بھوجا کے جانب سے بچوں کی شادی کے روک تھام سے متعلق قانون کی بعض شقوں کو غیر اسلامی قرار دینے کی درخواست کی تھی جن کے تحت کم عمری کی شادی کرنے والے والدین کے لیے قانونی کارروائی کے ساتھ ساتھ سزا بھی مقرر کی گئی ہے۔
تاہم عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ شادی کے لیے کم سے کم عمر کی حد مقرر کرنا غیر اسلامی اقدام نہیں ہے۔ لڑکیوں کو تعلیم کے ذریعے بااختیار کرنا اسلام میں ضروری قرار دیا گیا ہے۔ کم عمری کی شادی کی وجہ سے وہ تعلیم کے حصول سے محروم رہ سکتی ہیں۔
پاکستان کی شرعی عدالت نے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں دیا ہے جب پاکستان میں لڑکیوں کی کم از کم یکساں عمر مقرر کرنے کی کوشش جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن کی طرف سے پیش کردہ لڑکے یا لڑکی کی شادی کی کم سے کم عمر 18 سال کرنے کا ترمیمی بل پارلیمان کی ایوان بالا یعنی سینیٹ سے اپریل 2019 میں کثرت رائے سے منظور ہو چکا ہے اور اب یہ بل پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
اس بل کے تحت اپنے بچوں کی 18 سال سے کم عمر میں شادی کرنے والے والدین کے لیے دو لاکھ جرمانے اور تین سال کی قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔
انسانی حقوق کی کارکن فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ پورے ملک میں لڑکیوں کی کم سے کم عمر ایک ہی ہونی چاہیے۔
فرزانہ باری نے کہا کہ پاکستان میں بچوں کی شادی کی ممانعت کے باوجود بھی ملک کے اکثر علاقوں میں کم عمر بچیوں کی شادی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
تاہم فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ اس قانون پر سختی سے عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کے بقول شریعت کورٹ کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ قانون تو پہلے سے موجود ہے اور اس پر سختی سے عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ کم عمر بچوں کی شادی میں ملوث والدین اور نکاح خوانوں کے خلاف بھی مؤثر کارروائی ضروری ہے۔
فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ قوانین کی موجودگی کے باوجود اگر اس رجحان میں کمی نہیں آ رہی تو انتظامی سطح پر مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
مسیحی برادری کے نمائندے اور ادارہ برائے سماجی انصاف کے سربراہ پیٹر جیکب کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے ملک کے مختلف علاقوں میں لڑکی کی شادی کے کم سے کم کو عمر کو یکساں کرنے کی طرف پیش رفت ہو سکے گی۔
پاکستان میں گزشتہ چند برس کے دوران ہندو اور مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین خاص طور پر کم عمر لڑکیوں کی مبینہ جبری مذہبی تبدیلی کے رونما ہونے والے واقعات پر انسانی حقوق کے کارکن تحفظات کا اظہار کرتے آرہے ہیں۔
پیٹر جیکب کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے ملک میں مذہب کی تبدیلی کی مبینہ آڑ میں کم سن بچیوں کی شادی کے واقعات کی روک تھام ممکن ہو سکے گی اور ان بچیوں کے حقوق کے تحفظ حاصل ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ کہ ملک میں جبری مذہب کی تبدیلی اور جبری شادی کے واقعات کی روک تھام کی قانون سازی کے ساتھ ساتھ انتظامی سطح پر ان کے مؤثر اقدمات بھی ضروری ہیں۔