پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں مختلف معمولات چلانے کیلئے پاکستان سے بھی لوگوں کو افغانستان بھیجا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت پاکستانی روپے میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ افغانستان کے ساتھ تجارت ڈالر میں نہیں روپے میں ہو گی۔
اسلام آباد میں قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے شوکت ترین نے کہا کہ افغانستان کو ڈالر کی کمی کا خدشہ پیدا ہو گیا، اس وقت افغانستان کے زرمبادلہ کے دس ارب ڈالر روک لیے گئے ہیں۔ یہ ڈالرز آئی ایم ایف اور عالمی بنک نے افغانستان روکے ہیں جس کی وجہ سے افغانستان میں ڈالرز کی کمی ہے۔ ہم افغانستان کی صورتحال کا روزانہ کی بنیاد پر جائزہ لے رہے ہیں۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اس وقت صورتحال کے باعث مختلف معمولات چلانے کے لیے پاکستان سےلوگوں کو بھیجا جاسکتا ہے، لیکن اس بارے میں حکومتی سطح پر بات چیت اور ضرورت کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔
شوکت ترین نے اس خدشہ کا بھی اظہار کیا کہ افغانستان میں موجودہ صورتحال کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیا افغانستان جانے سے مقامی قلت کا خدشہ ہے جس کے لیے کام کیا جارہا ہے۔ کسی بھی قسم کی قلت کو روکنے کے لیے اضافی ذخائر قائم کیے جا رہے ہیں۔
شوکت ترین نے اجلاس میں اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ آئی ایم ایف اور یورو بانڈ سمیت سوا چھ ارب ڈالر کے فنڈز حاصل ہوئے ہیں، اس سے زر مبادلہ ذخائر بلند ترین سطح تک پہنچ گئے، لیکن ذخائر میں اضافے کا تعلق تجارت سے نہیں ہے۔
اس بارے میں تجزیہ کار خرم شہزاد کہتے ہیں کہ افغانستان میں اس وقت ڈالر کی کمی ہے اور آئندہ کچھ عرصے تک صورتحال کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ لہذا، ایسےمیں افغانستان کےسات روپےمیں تجارت کرنا بہتر ہوگا۔
خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ ماضی میں چین کےساتھ بھی چینی یوان اور پاکستای روپے میں تجارت کرنے کی بات کی گئی تھی۔ افغانستان کی معیشت گذشتہ 20 سال سے ڈالر پر انحصار کررہی تھی، لیکن اب موجودہ صورتحال میں ان کے پاس ڈالرز کی کمی ہے۔ ایسے میں روپے میں تجارت سے بہتری آئے گی۔ افغان کرنسی اور پاکستانی روپے جس تیسری رقم کے برابر تصور ہونگی وہ ڈالر ہی ہوگا۔ لیکن مشکل معاشی حالات میں دونوں ملکوں کے لیے یہ ایک بہتر فیصلہ ہے۔ افغانستان میں اس وقت وہ کھانے پینے کی اشیا کے لیےبھی پاکستان پر انحصار کرتے ہیں ایسے میں ڈالر نہ ہونے سے وہاں بحران پیدا ہوسکتا ہے جس کےلیے پاکستان کا اچھا اقدام ہے۔
افغانستان کی معیشت کو دیکھنےکے لیےپاکستان سے ماہرین بھجوانے کے معاملہ پر خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ عارضی بنیادوں پر پاکستان سے ہیومن کیپٹل بھجوانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ہمارے پڑوس میں اگر ایک ملک مشکلات کا شکار ہو اور وہاں اس شعبے سے متعلق کام کرنے والے لوگ موجود نہ ہوں تو پاکستان سے ضرور ماہرین کو بھجوانا چاہیے۔
معاشی امور پر کام کرنے والے صحافی شہباز رانا کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں ڈالر 168 روپےتک پہنچ چکا ہے، جبکہ افغان کرنسی ہمارے روپے کے مقابلہ میں بہتر ہے۔ اس وقت افغان روپیہ 90 روپے کے قریب ہے۔ لہذا، ایسی صورتحال میں افغانستان کے ساتھ روپے میں تجارت دونوں ملکوں کے لیے فائدہ مند ہوسکتی ہے۔
پاکستان کا چین کے ساتھ بھی روپے اور یوان کا معاہدہ ہے
پاکستان کا سال 2011 میں ایک دوسرے کی کرنسی میں تجارت کرنے کا معاہدہ موجود ہے۔ لیکن سال 2018 میں اس بارے میں عملی طور پر کام کا آغاز کیا گیا اور اس بارے میں میکنزم تشکیل دیا گیا، جس کے مطابق، چین کے ساتھ ہونے والے آئندہ معاہدے یوان میں کیے جائیں گے۔ اس فیصلے پر مکمل عمل درآمد نہ کیا جا سکا۔ تاہم، گوادر اور بلوچستان کے کچھ علاقوں میں چینی کرنسی کے استعمال میں اضافہ دیکھا گیا۔
اس معاہدہ کے تحت پاکستان، چین سے خریدی گئی اشیا کی ادائیگی یوآن میں اور چین پاکستان سے خریدی گئی اشیا کی ادائیگی روپوں میں کر سکتا ہے۔ ادائیگی کا طریقہ کار وضع کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک اور پیپلز بینک آف چائنا کے درمیان کرنسی سوئیپ کا معاہدہ ہوا تھا۔