افغانستان میں متحارب فریقین کے نمائندے رواں ہفتے قطر میں مذاکرات میں شرکت کریں گے جس میں دیگر اہم معاملات سمیت کشیدگی میں کمی لانے کا معاملہ سرِ فہرست ہو گا۔
پاکستان میں اعلیٰ ترین سرکاری ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ یہ مذاکرات جمعرات کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع ہوں گے جس میں طالبان اور افغان حکومت کے مذاکرات کار شریک ہوں گے۔
ذرائع نے دعویٰ کیا کہ ان مذاکرات کے انعقاد کی کاوشوں میں پاکستان نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔
افغان حکام نے تصدیق کی ہے کہ افغان مذاکرات کاروں کا وفد منگل کو دوحہ روانہ ہوا ہے۔ البتہ، انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ طالبان نمائندوں سے ان کی ملاقات کب متوقع ہے۔
دوحہ میں موجود طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مذاکرات کی تاریخ کا تعین نہیں کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ ہمیشہ مذاکرات کے عمل میں شرکت کے خواہاں رہے ہیں۔
اس پیش رفت کو 'افغان امن عمل' کی بحالی کے حوالے سے اہم خیال کیا جا رہا ہے جو کہ ایسے میں سامنے آئی ہے جب امریکہ اور نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلا آنے والے مہینوں میں طے ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکہ کے صدر جو بائیڈن اعلان کر چکے ہیں کہ 11 ستمبر تک فوجی انخلا کا کام مکمل کر لیا جائے گا۔
افغانستان سے رواں برس یکم مئی سے امریکہ کے تقریباً 2500، جب کہ نیٹو اتحادیوں کے لگ بھگ 7000 فوجی اہلکاروں کا انخلا شروع ہو چکا ہے۔
امریکی حکام کی جانب سے قطر مذاکرات کے حوالے سے ذرائع ابلاغ میں آنے والی اس خبر پر اب تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ البتہ، امریکہ کی فوج نے منگل کو ایک بیان میں بتایا تھا کہ افغانستان سے فوج کی واپسی کا 30 سے 44 فی صد کام مکمل ہو گیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' نے اپنی خبر میں افغان اور امریکی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکہ آئندہ 20 روز میں بگرام ایئربیس بھی افغان حکومت کے حوالے کر دے گا۔
پینٹاگون کے پریس سیکرٹری جان کربی نے منگل کو بگرام ایئربیس کی حوالگی کی تاریخ سے متعلق تصدیق کرنے سے معذرت کی ہے۔ تاہم، انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "یہ واضح ہے کہ بگرام بیس حوالے کی جائے گی۔"
واضح رہے کہ افغانستان میں فضائی آپریشن کے لیے بگرام ایئر بیس مرکزی حیثیت رکھتی ہے اور امریکی فوج کے لیے اس بیس نے ایک اہم کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کا کردار ادا کیا ہے۔
افغان حکام نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ امریکہ نے قندھار ایئرفیلڈ پہلے ہی چھوڑ دی تھی، جہاں بڑے پیمانے پر سیکیورٹی تنصیبات موجود تھیں اور ایک موقع پر 30 ہزار اتحادی فوجی اور کنٹریکٹر وہاں تعینات تھے۔