پاکستان میں مقیم افغان فوج کےسابق پائلٹ امریکہ منتقلی کے منتظر

فائل فوٹو

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک عمارت کی تیسری منزل پر چھ افغان باشندے مقیم ہیں جو امریکہ سے آنے والی ایک ای میل کا انتظار کر رہے ہیں۔

یہ افراد در حقیقت افغان فوج میں پائلٹ یا انجینئر تھے جو طالبان کے برسرِ اقتدار آتے ہی اپنے دیگر ہزاروں ساتھیوں کی طرح ملک سے فرار ہو گئے تھے۔ یہ لوگ برسوں تک طالبان کے خلاف لڑتے رہے تھے اس لیے انہیں خدشہ تھا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد انہیں انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یہ لوگ گزشتہ ڈیڑھ برس سے پاکستان میں ہیں اور بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں کہ ان کی امریکہ منتقل ہونے کی درخواستوں پر کب عمل ہوتا ہے۔

افغانستان کی فوج میں بطور پائلٹ خدمات انجام دینے والے حفیظ اللہ (تحفظ کے پیشِ نظر اصل نام مخفی رکھا گیا ہے) کہتے ہیں کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد ان کے کچھ ساتھی انسانی اسمگلروں کی مدد سے یورپ چلے گئے تھے۔ان کے بقول، گزشتہ 18 ماہ میں جو رقم پاکستان میں رہتے ہوئے وہ خرچ کر چکے ہیں، اگر یورپ جانے کے لیے لگا دیتے تو آج ان کی زندگی بہتر ہوتی۔

حفیظ اللہ کی عمر لگ بھگ 27 برس ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں اب بھی یورپ کے کسی ملک میں پناہ مل سکتی ہے۔

طالبان کے اقتدار میں آنے کے چند ماہ کے دوران امریکہ نے لگ بھگ 90 ہزار افغان تارکینِ وطن کو ملک کے مختلف علاقوں میں منتقل کیا تھا۔

واشنگٹن ڈی سی نے ’یو ایس ریفوجی ایڈمنسٹریشن پروگرام‘ کے ذریعے تارکینِ وطن کی امریکہ منتقلی کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا ہے جس کے تحت پناہ کے متلاشی افغان شہری امریکہ منتقل ہو سکتے ہیں۔

SEE ALSO: 'افغانستان میں موجود سیاسی رہنماؤں کا طالبان پر کوئی اثر و رسوخ نہیں"

اس پروگرام میں شامل ہونے کے لیے لازمی ہے کہ افغان باشندے پہلے مرحلے میں افغانستان سے کسی دوسرے ملک پہنچ کر درخواست دیں۔ پھر امریکہ کا محکمۂ خارجہ ان کی امریکہ منتقلی کے انتظامات شروع کر دے گا۔

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد مذکورہ افغان پائلٹوں نے پڑوسی ملک ایران کے بجائے پاکستان منتقل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ کیوں کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں جب کہ ایران کے تعلقات کشیدہ ہیں۔

امریکہ منتقلی کے عمل میں کتنا وقت لگے لگا؟

افغان پائلٹوں اور انجیئنروں کو امریکی ساتھی اہلکاروں نے ’یو ایس ریفوجی ایڈمنسٹریشن پروگرام‘ میں درخؐواست دینے کی تجویز دی تھی اور وہ امریکہ منتقلی کی اپنی درخواستیں بھیج چکے ہیں۔

پاکستان میں مہینوں کے انتظار کے بعد انہیں آباد کاری سپورٹ سینٹر سے ریفرل ریکارڈ ( اے آر آر) نمبر موصول ہو چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود انہیں ابھی مزید انتظار کرنا ہو گا۔

امریکہ منتقلی سے قبل ان کی اسکریننگ ہوگی جب کہ امیگریشن عہدہ داران کے انٹرویو بھی لیں گے۔

امریکہ کی محکمۂ خارجہ کی ویب سائٹ پر موجود تفصیلات کے مطابق ’یو ایس ریفوجی ایڈمنسٹریشن پروگرام‘ کے تحت درخواست دینے کے بعد درخواست گزار پر عمل درآمد میں لگ بھگ ایک سے ڈیڑھ سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔

واضح رہے کہ امریکہ میں گزشتہ حکومت میں 2017 میں تارکینِ وطن کی آمد روکنے کے اقدامات کیے گئے تھے جس کے سبب اس حوالے سے سرکاری عملے میں بھی کمی کی گئی تھی۔ موجودہ انتظامیہ میں سرکاری عملہ تو بڑھایا گیا ہے لیکن اب بھی لگ بھگ ایک چوتھائی عہدے خالی ہیں۔ جس کے سبب تارکینِ وطن کی درخواستوں پر عمل درآمد میں زیادہ وقت لگ رہا ہے۔

SEE ALSO: طالبان کنٹرول کے دوسال مکمل: افغانستان کو ایک پر امن ملک دیکھنا چاہتے ہیں، امریکی محکمہ خارجہ

پاکستان میں مقیم پائلٹوں میں اکثر کے ویزوں کی مدت بھی ختم ہو چکی ہے ، ان کے لیے پاکستان میں روزگار کی تلاش بھی مشکل مرحلہ ہے۔ اس لیے وہ اخراجات کے لیے افغانستان میں اپنے خاندان کے افراد سے رقم منگوانے پر مجبور ہیں۔

ان افراد میں شامل بعض سابق سرکاری اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے گھر کی تمام چیزیں فروخت کرکے پاکستان منتقل ہوئے تھے۔ اب ان کے پاس رقم ختم ہو چکی ہے اورہ وہ اپنی اہلیہ کے زیورات بیچ کر گزارا کرنے پر مجبور ہیں۔

'چالیس پائلٹ امریکہ منتقلی کے منتظر ہیں'

ان کی امریکہ منتقلی کی درخواستوں پر پیش رفت نہ ہونے اور غیر یقینی صورتِ حال کے باوجود یہ افراد واپس افغانستان جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں طالبان ان کی تلاش میں ہیں۔

ان کے بقول طالبان افغانستان میں موجود ان کے گھروں کی کئی بار تلاشی لے چکے ہیں۔

اسلام آباد میں موجود افغان باشندوں کے مطابق لگ بھگ 40 پائلٹ پاکستان میں ہیں اور وہ امریکہ منتقلی کی درخواستوں پر عمل درآمد کے منتظر ہیں۔

اب یہ افراد ان دوستوں سے بھی بد دل ہیں جنہوں نے انہیں پاکستان منتقل ہو کر ’یو ایس ریفوجی ایڈمنسٹریشن پروگرام‘ میں درخواست دینے کی تجویز دی تھی۔

دوسری جانب جن امریکیوں نے افغان باشندوں کو امریکی پروگرام کی تجویز دی تھی، ہ وہ بھی اس حوالے سے کچھ زیادہ کرنے سے قاصر ہیں۔

SEE ALSO:  امریکہ میں70 ہزار نئے افغان پناہ گزینوں کی عارضی رہائشی حیثیت خطرے میں

امریکہ کی فضائیہ کے لیفٹننٹ کرنل گریڈن ملر نے وائس آف امریکہ کی ای میل کے جواب میں کہا کہ وہ ان پائلٹوں کی بے چینی سے آگاہ ہیں۔

ان کے بقول مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ کا پروگرام زیادہ مستعدی سے رابطہ کاری نہیں کر رہا ، کسی بھی سوال کا زیادہ تر بروقت جواب نہیں مل پاتا اور ایسا خود کار نظام بھی موجود نہیں ہے کہ پتہ چل سکےکہ یہ درخواست کسی مرحلے تک پہنچ چکی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ امریکہ کی حکومت کے لیے ممکن نہیں کہ وہ درخواستوں پر اس تیزی سے اقدامات کرے جس طرح لوگوں کوتوقع ہے۔ البتہ لگ بھگ 260 افغان شہریوں کی درخواستوں پر کارروائی ہو رہی ہے۔

امریکہ کے محکمۂ خارجہ نے وائس آف امریکہ کو ایک ای میل کے ذریعے بتایا کہ افغان اتحادیوں کی درخواستوں کو ترجیحی بنیاد پر دیکھا جا رہا ہے اور ان پر تیزی سے کام آگے بڑھانے کے لیے پاکستان میں استعداد کو بھی بڑھایا جا رہا ہے۔

محکمۂ خارجہ کے مطابق ہر وہ ذریعہ استعمال کیا جائے گا جس سے یہ ممکن بنایا جائے کہ کوئی بھی ایسا عنصر امریکہ کی کمیونٹیز میں شامل نہ ہو جو اس کے لیے خطرہ ثابت ہو۔

SEE ALSO: افغانستان میں سابق اعلیٰ عہدہ داروں کے محلات ویران پڑے ہیں

دوسری جانب افغانستان کی سابق فوج کے پاکستان میں موجود پائلٹوں کی امید اب کم ہوتی جا رہی ہے۔ کیوں کہ وہ اپنوں سے دور ہیں جب کہ ان کے پاس اب اخراجات کے لیے رقم بھی انتہائی محدود ہے۔ انہیں تاحال اس بات کا بھی علم نہیں کہ امریکہ منتقلی کی ان کی درخواست کس مرحلے پر پہنچ چکی ہے۔

ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ جب وہ صبح بیدار ہوتے ہیں تو انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ ان کا مقصد کیا ہے اور وہ اپنے مستقبل میں ایک مشکل زندگی کو دیکھ رہے ہیں۔

تاہم ان میں سے بعض کو امید ہے کہ مستقبل میں ان کے لیے اور ان کے اہلِ خانہ کے لیے ایک بہتر دن موجود ہے۔