افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ اُن کی حکومت کا اپنی میعاد پوری کرنے سے زیادہ اہم ملک میں قیامِ امن ہے۔ تاہم اُن کے بقول افغانستان کے مستقبل کا تعین خواب دیکھنے والے نہیں بلکہ افغان عوام کریں گے۔
صدر غنی نے کہا کہ تمام فریقوں کو ایک سال میں سخت فیصلے اور قربانیوں کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ ان کے بقول ہمیں وقت کی نزاکت کا احساس ہے اور ہم مشکل فیصلے کرنے کے لیے تیار ہیں۔
صدر غنی نے یہ بات برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ایسے وقت میں کہی ہے جب افغانستان میں قیامِ امن کے لیے ایک ایسی عبوری حکومت کے قیام کی بازگشت سنائی دے رہی ہے جس میں طالبان کے علاوہ دیگر افغان دھڑے بھی شامل ہوں۔
افغان صدر کا کہنا تھا کہ امن عمل کو تیز کرنے کا ایک موقع موجود ہے لیکن اس کے لیے تشدد ختم کرنے کے علاوہ مخالف فریق کو بھی مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔
صدر غنی کا یہ بیان مغربی ممالک کے عسکری اتحاد (نیٹو) کی طرف سے اُس اعلان کے بعد سامنے آیا ہے کہ جس میں نیٹو نے افغانستان سے فورسز کے انخلا کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
یاد رہے کہ اس وقت افغانستان میں نیٹو کے لگ بھگ 10 ہزار فوجی موجود ہیں اور امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت یکم مئی تک تمام غیر ملکی فورسز کو افغانستان سے نکلنا ہے۔
صدر غنی نے مزید کہا کہ نیٹو کا اعلان تمام فریقوں کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ ایک بار پھر اس بات پر غور کریں کہ طاقت کا استعمال مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ان کے بقول ہمیں ایک سیاسی تصفیے تک پہنچنا ہے۔
صدر غنی نے کہا کہ بین الاقوامی طور پر مشترکہ کوششوں سے یہ پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ بعض مخصوص قسم کے طرزِ عمل قابلِ قبول نہیں ہیں۔
یاد رہے کہ نئی امریکی انتظامیہ نے گزشتہ سال امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے پر نظرِ ثانی کا اعلان کر رکھا ہے۔
صدر غنی جو امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں شامل نہیں تھے نے مزید بتایا کہ وہ امریکہ کی نئی انتظامیہ کے ساتھ اپنے تعلقات اور ہم آہنگی پر خوش ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول سانحات سے بچنے کے لیے وہ ہم آہنگی کی طاقت پر انحصار کر رہے ہیں۔ ان کے بقول خانہ جنگی سے متعلق بہت سے خدشات ہیں۔ صدر غنی نے اعتراف کیا کہ افغانستان میں فریقین جنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔
لیکن صدر غنی نے طالبان کی جنگی کامیابی کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ "یہ (افغانستان) ویت نام نہیں ہے اور نہ ہی حکومت ختم ہو رہی ہے۔"
ادھر دوحہ میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہیں اور افغانستان میں تشدد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود صدر غنی نے کہا کہ حالات نا امیدی کی نہیں بلکہ امید کی غمازی کرتے ہیں۔