پشتون تحفظ موومنٹ کے محسن داوڑ نے افغان صدر کے الفاظ کا شکریہ ادا کیا اور لکھا ہےکہ ان کی خواہش ہے کہ ’’ہماری اپنی ریاست ارمان لونی کے قتل کے جرم کو مانے۔ مگر اس نے ہم پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ اب اگر کوئی ہم سے ہمدردی بھی کرتا ہے تو ریاست اس کی مذمت کرتی ہے‘‘
ان ٹویٹس کے تبادلے کے بعد پاکستانی سوشل میڈیا میں ماہرین اس بات پر لے دے کر رہے ہیں آیا افغان صدر کی جانب سے ایسی ٹویٹس مداخلت تصور ہوں گی یا پاکستان کو افغان صدر کی ٹویٹس پر ناراض ہونے کے بجائے اندرونی معاملات کو درست کرنا چاہئے، تاکہ کسی کو موقع ہی نہ ملے۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے محسن داوڑ نے افغان صدر کے الفاظ کا شکریہ ادا کیا اور لکھا کہ ان کی خواہش ہے کہ ’’ہماری اپنی ریاست ارمان لونی کے قتل کے جرم کو مانے۔ مگر اس نے ہم پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ اب اگر کوئی ہم سے ہمدردی بھی کرتا ہے تو ریاست اس کی مذمت کرتی ہے‘‘۔ محسن داوڑ نے لکھا ہے کہ ’’آخر اسے کس طرح سے انسانیت کہا جائے؟‘‘
بختاور بھٹو زرداری نے شاہ محمود قریشی کی ٹویٹ کے نیچے لکھا کہ ’’کیا سوال کرنے سے ہماری حب الوطنی مجروح ہوتی ہے یا غیر قانونی حراست اور اپنے شہریوں کے قتل سے حب الوطنی مجروح ہوتی ہے؟‘‘
اس ٹویٹ کے جواب میں انسانی حقوق کی پاکستانی وزیر شیریں مزاری نے سخت تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ افغان صدر کو اپنے ملک کے لوگوں کے مسائل کے حل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے اور اپنی افواج اور نیٹو کے ساتھ مل کر سرحد پار دہشت گردوں کو گھسنے سے روکنا چاہیئے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمان نے لکھا کہ ’’پاکستان میں جمہوری قوتیں سول اور انسانی حقوق کی جنگ لڑتی آئی ہیں اور ایسا کرتی رہیں گی۔ لیکن، افغان صدر اگر چاہتے ہیں کہ عدم مداخلت اور ایک دوسرے کی مثبت حمایت کا رویہ اپنایا جائے تو انہیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے‘‘۔
صحافی، اینکر اور پشتون تحفظ موومنٹ کے حامی مبشر زیدی نے افغان صدر کو لکھا ہے کہ ’’ہمیں تقسیم کرنے کی تمہاری کوشش ناکام ہو گی۔‘‘
سابق وزر خارجہ حنا ربانی کھر نے لکھا ہے کہ ’’اس بات کا افسوس ہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کے اندرونی معاملات پر بیان دیا‘‘۔ انھوں نے کہا ہے کہ ’’اگرچہ ہمیں اپنے معاملات کو درست کرنے کی ضرورت ہے مگر اشرف غنی کے بیان سے معاملات مزید بگڑیں گے‘‘۔
حنا ربانی کھر نے لکھا ہے کہ ’’ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ احتجاج کرنے والوں کے خلاف سخت رویہ اپنانے اور انہیں غدار کہنے سے معاملات بہتر نہیں ہوتے‘‘۔
پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے لکھا ہے کہ ’’پشتون نوجوانوں کی تکالیف پر توجہ نہ دینے سے دوسروں کو ہمارے اندرونی معاملوں پر تبصرہ کرنے کا موقع ملا۔ اگرچہ یہ مداخلت ہمیں قبول نہیں ہے، مگر انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی کسی صورت منظور نہیں۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ انسانی حقوق پر سرحدوں کا اطلاق نہیں ہوتا‘‘۔
تجزیہ کار مشرف زیدی نے اشرف غنی پر طنز کیا کہ ’’بچارے اشرف غنی افغانستان کے معاملات پر ماسکو میں ہونے والے مذاکرات میں تو انہیں کسی نے مدعو نہیں کیا اور وہ دوسرے ملک کے معاملات پر تبصرہ کر رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے لکھا کہ ’’افغان صدر کا بیان سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہے‘‘۔
جبران ناصر نے لکھا کہ ’’اگرچہ یہ درست ہے کہ ہماری حکومت کو غیر ممالک سے مداخلت پر ردعمل دینا چاہئے، مگر یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان کی حکومت ہندوستان میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر انسانی بنیادوں پر بیان دیتی رہتی ہے۔ افغان صدر کے بیان کا بہترین جواب پشتون تحفظ موومنٹ کے مسائل کو حل کرنا ہے۔ حکومت تو ابھی تک یہ ہی فیصلہ نہیں کر سکی کہ پی ٹی ایم کے کارکنوں کی گرفتاری کا حکم کس نے دیا ہے؟‘‘
ایک ٹویٹر صارف، شہباز ستوریانی نے لکھا ہےکہ ’’بغیر جرم بتائے 19 پشتون ریاست نے گرفتار کر رکھے ہیں۔ پشتونوں کو انکا جرم تک نہیں بتایا جا رہا۔ لیکن، ریاست کو اشرف غنی کی ٹوئٹ پر بہت غصہ آیا ہوا ہے۔ دنیا بھر میں انسان بستے ہیں، درندے نہیں اور ہر انسان کا دل انسان کے ساتھ غیر انسانی سلوک سے لرزتا ہے۔‘‘
تجزیہ نگار رفیع اللہ کاکڑ نے لکھا ہے کہ ’’جس طرح پاکستانی قوم پرست افغان صدر کی ٹویٹ پر ناراض ہو رہے ہیں، اگر اسی طرح ریاست کی جانب سے پی ٹی ایم پر مظالم پر ردعمل ظاہر کیا جاتا تو ہم آج ان حالات تک نہ پہنچتے‘‘۔