گذشتہ ماہ چار خواتین کے ساتھ ہونے والی اجتماعی جسمانی زیادتی کے مقدمے میں، جِس کے نتیجے میں ملک بھر میں احتجاج بھڑک اٹھا، ایک افغان جج نے سات ملزمان کو موت کی سزا سنائی ہے۔
اتوار کو ایک مختصر عدالتی کارروائی کے بعد، جسے ٹیلی ویژن پر ملک بھر میں نشر کیا گیا، نشانہ بننے والی ایک خاتون نے زیادتی کرنے والوں کو شناخت کیا۔ پولیس کی وردی پہنے اور رائفلوں سے مسلح، اِن مجرموں نے 23 اگست کی رات اِن خواتین کو کاروں کے قافلے میں سے گھسیٹ کر نیچے اتارا، ایسے میں جب وہ اپنے خاندانوں کے ہمراہ شادی کی ایک تقریب سے کابل واپس آ رہی تھیں۔
خاتون نے کہا کہ ’ایک حملہ آور نے میرے سر پر بندوق رکھی، دوسرے نے ہمارے سارے زیورات چھینے‘ جس کے بعد دیگر حملہ آوروں نے اُن کے ساتھ جسمانی زیادتی کی۔
عدالت کے باہر کھڑے مظاہرین نے اس مقدمے میں موت کی سزا کا مطالبہ کیا۔
کمرہٴ عدالت میں شرکاٴ نے اُس وقت خوشی کا اظہار کیا جب کابل کے پولیس سربراہ، ظاہر ظہیر نے اعلان کیا کہ حکام چاہتے ہیں کہ ملزمان کو چوراہے پر پھانسی دی جائے، ’تاکہ یہ معاملہ دوسروں کے لیے سبق آموز ثابت ہو‘۔
افغان صدر حامد کرزئی نے بھی اِن مجرموں کو لٹکائے جانے کا مطالبہ کیا تھا۔
جج شفیع اللہ مجددی نے مسلح ڈکیتی اور جسمانی زیادتی کے مقدمات میں ملوث مجرموں کو سزا سنائی، اور اُنھیں ’سخت ترین سزا، یعنی موت کی سزا‘ دینے کا اعلان کیا۔
اس مقدمے کا کافی شہرہ ہوا جس میں خواتین کے خلاف زیادتی کا معاملہ سامنے آیا، جن واقعات کا اب بھی افغانستان میں ارتکاب ہوتا ہے، حالانکہ اس سلسلے میں قوانین میں اصلاح کی گئی ہے، جب کہ ایک عشرہ قبل طالبان کی حکمرانی کے دوران یہ واقعات اپنی انتہا پر تھے۔