پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغان باشندوں کے خلاف کارروائی کے بعد قانونی طور پر رہنے والے افغان مہاجرین کی بھی اپنے وطن واپسی میں اضافہ دیکھنے میں آرھا ہے۔
پشاور کے قریب ازاخیل میں جی ٹی روڈ پر اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر)کے دفتر کے سامنے ملک کے مختلف علاقوں سے افغان باشندے جمع ہو رہے ہیں اور یہ سلسلہ گزشتہ کئی روز سے جاری ہے۔
یو این ایچ سی آر کے دفتر کے سامنے جمع ہونے والوں کی اکثریت صوبہ پنجاب اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سمیت دیگر علاقوں سے ہے۔ ان میں زیادہ تر وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کےپاس کوئی دستاویزات نہیں۔
افغان باشندے وطن واپسی کے لیے کاغذات کی جانچ پڑتال میں سست روی کے علاوہ دیگر سہولیات نہ ہونے کی شکایات کر رہے۔ لاہور ، چکوال ، فیصل آباد اور پنجاب کے دیگر شہروں سے تین چار روز قبل ازاخیل پہنچنے والے افغان باشندوں کا کہنا ہے کہ انہیں وطن واپسی کے لیے کاغذات اب تک فراہم نہیں کیے گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ترجمان قیصر آفریدی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ستمبر سے افغان باشندوں کی وطن واپسی میں اضافہ ہوا ہے اور پندرہ ستمبر سے اٹھائیس اکتوبر تک ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زیادہ افراد اپنے ملک روانہ ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ رضاکارانہ طور پر افغانستان واپس جانے والوں کو روانگی کے وقت پہلے کچھ نقد رقم اور دیگر ضروری اشیاء دی جاتی تھیں اور اس مرتبہ پھر ہر ممکن مدد فراہم کی جارہی ہے۔
خیبر پختونخوا کے نگراں وزیر اطلاعات بیرسٹر فیروز جمال شاہ کاکاخیل کہتے ہیں پاکستان کی اولین ترجیح ہے کہ واپس جانے والوں کے دل میں کوئی رنجش نہ ہو اور انہیں جتنی سہولت دے سکتے ہیں وہ دی جائیں۔
ان کے بقول، صوبائی حکومت نے لنڈی کوتل کے قریب واپس جانے والوں کے لیے پانی ، باتھ روم اور دیگر ضروری اشیاء کے اقدامات کیے ہیں جب کہ ہولڈنگ سینٹرز میں پختون روایات کو برقرار رکھتے ہوئےخواتین کی تصاویر اور فنگر پرنٹ نہیں لیے جائیں گے۔
انہوں نے زبردستی کرنے یا کریک ڈاؤن کی اطلاعات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ افغان مہاجرین اپنی مرضی سے واپس جا رہے ہیں اور اب تک ڈیڑھ لاکھ کے قریب افراد رضا کارانہ طور پر افغانستان جا چکے ہیں۔
افغان باشندے پاکستان سے واپس جانے کے لیے ان ٹرکوں اور ٹرالرز میں سامان لاد کر واپس جانے کو ترجیح دے رہے ہیں جو افغانستان سے پاکستان تجارتی سامان بالخصوص میوہ جات اور سبزیاں لاتے ہیں۔
SEE ALSO: خواتین اور بچوں کو زبردستی افغانستان نہ بھیجا جائے: عالمی تنظیموں کی پاکستان سے اپیلافغانستان کے ٹرانسپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدر اکرام خان نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ افغان مہاجرین کے سامان سے لدے ہوئے لگ بھگ دو سو ٹرالرز اس وقت لنڈی کوتل اور طورخم میں کلیئرنس کے لیے کھڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ واپس جانے والوں کی پاکستان میں کلئیرنس کا عمل نہایت سست روی کا شکار ہے۔ ازاخیل میں سینکڑوں گاڑیاں پچھلے کئی دنوں سے کلئیرنس کی منتظر ہیں جب کہ یو این ایچ سی آر میں روزانہ دس سے بارہ گاڑیوں کی کلئیرنس کی جاتی ہے۔
کراچی سے ازاخیل پہنچنے والے واحد خان کا کہنا ہے کہ وہ خاندان اور دیگر ہم وطنوں کے ہمراہ چار دن پہلے پہنچے تھے لیکن اب تک کلئیرنس کے لیے ان کی گاڑی کا اندراج تک نہیں ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ گاڑیوں میں سوار خواتین اور بچے کھلے آسمان تلے سرد راتیں گزارنے پر مجبور ہیں۔
لاہور کے علاقے ٹھوکر نیاز بیگ سے ازاخیل پہنچنے والے ایک نوجوان، جس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ افغانستان واپس جانا چاہتے ہیں لیکن انہیں عزت و احترام سے ساتھ واپس جانے دیا جائے۔
انہوں کہا کہ اس وقت کلئیرنس میں تاخیر سے نہ صرف مشکلات بڑھ رہی ہیں بلکہ گاڑیوں کے ڈرائیور اور مالکان کرائے میں اضافے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
لاہور سے ایک اور نوجوان نے کہا کہ وہ لاہور پولیس کے رویے سے تنگ آکر اپنے خاندان کے ہمراہ افغانستان جا رہے ہیں۔ ان کے بقول، "اتنا ظلم تو فلسطین میں نہیں ہو رہا، جو لاہور پولیس کر رہی ہے۔"
ازاخیل میں اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مرکز کے اندر صرف ان گاڑیوں اور اس میں سوار لوگوں کو اندر جانے دیا جا رہا ہے جن کا اندراج ہو جاتا ہے ۔