تیس سے زیادہ أفغان باشندے، پناہ کے لیے اپنی درخواستیں مسترد ہونے کے بعد جمعرات کے روز وطن واپس پہنچ گئے۔
یہ نوجوان افراد ان 12000 کے لگ بھگ أفغان باشندوں کو پہلا حصہ ہیں جنہیں جرمنی کی حکومت ایک دوطرفہ معاہدے کے تحت زبر دستی اپنے ملک واپس بھیجنا چاہتی ہے۔
جرمنی کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کو ملک چھوڑنے کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں اور اگلے مہینے مزید أفغان باشندوں کو پرواز کے ذریعے واپس بھجوا دیا جائے گا۔
جرمنی سے نکالے گئے أفغان ایک چارٹررڈ طیارے کے ذریعے کابل کے ایئر پورٹ پر پہنچے۔ ان کے پاس بہت تھوڑا سامان تھا۔
انہوں نے جرمنی میں کئی سال تک رہنے کے بعد وہاں سے زبردستی نکالے جانے پر مایوسی کا اظہار کیا۔
وہ ایک ایسے ملک میں واپس پہنچے ہیں جہاں 2014 میں غیر ملکی فورسز کی واپسی کے بعد معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور طالبان کو اپنے پاؤں جمانے اور علاقوں پر قبضہ کرنے کا موقع مل رہا ہے۔
واپس آنے والے ایک أفغان باشندے علی مدد ناصر نے بتایا کہ میں تین سال سے جرمنی میں رہ رہا تھا۔ چار جرمن پولیس اہل کار ایک صبح میرے گھر میں داخل ہوئے ۔ میں اس وقت سویا ہوا تھا۔ انہوں نے مجھے پکڑا اور ملک بدر کر دیا۔مجھے اپنے کپڑے، موبائل فون اور لیپ ٹاپ تک اٹھانے کی اجازت نہیں دی۔
سن 2015 سے أفغان باشندوں کی ایک بڑی تعداد مشرق وسطی کے شورش زدہ ملکوں کے راستے یورپ میں داخل ہورہے ہیں۔ جرمنی کے حکام کا کہنا ہے کہ ان کے ملک میں 2016 میں پناہ کے لیے درخواست دینے والوں میں شام کے بعد دوسرا نمبر أفغان باشندوں کا ہے۔