افغان طالبان نے اپنے جنگجوؤں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی صفوں میں غیر ملکیوں کو پناہ نہ دیں اور اس تاثر کو زائل کریں کہ امریکہ سے گزشتہ برس ہونے والے امن معاہدے کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔
طالبان کے نام نہاد ملٹری کمشنز نے جنگجوؤں کو ارسال کردہ مبینہ پیغام میں ہدایت کی ہے کہ 'تمام کمانڈرز اور مجاہدین غیر ملکیوں کو تنظیم میں کسی بھی قسم کا عہدہ دینے یا اُنہیں پناہ دینے سے اجتناب کریں۔"
طالبان کا یہ بیان سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ حکم نامہ کی خلاف ورزی کرنے والے کو کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا اور ایسے شخص کو تنظیم سے الگ بھی کیا جا سکتا ہے۔
پشتو زبان میں جاری ہونے والے مذکورہ احکامات کی تصدیق کے لیے وائس آف امریکہ نے جب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے رابطہ کیا تو اُن کا کہنا تھا وہ اعلیٰ ذمہ داران سے معلومات حاصل کرنے کے بعد ہی کوئی جواب دے سکتے ہیں۔
طالبان کی جانب سے مبینہ احکامات ایسے موقع پر سامنے آئے ہیں جب امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت نے امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری 2020 میں ہونے والے امن معاہدے پر نظر ثانی کا عندیہ دیا تھا۔
امریکی محکمۂ دفاع کے ترجمان جان کربی نے بدھ کو میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ طالبان سے ہونے والے امن معاہدے پر نظرثانی کا عمل جاری ہے۔
SEE ALSO: افغان امن مذاکرات کے دوبارہ آغاز کے باوجود بے یقینی کی صورتِ حال برقراریاد رہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طے پانے امن معاہدے کے تحت یکم مئی کو تمام غیر ملکی افواج کو افغانستان سے نکلنا ہے۔ طالبان نے بھی ضمانت دی تھی کہ وہ غیر ملکی افواج کو نشانہ نہیں بنائیں گے اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ بننے والی عالمی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ رابطے نہیں رکھیں گے۔
طالبان پر اب بھی الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے افغانستان میں عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے ساتھ تعلقات منقطع نہیں کیے۔
افغان رہنماؤں کی جانب سے مسلسل الزامات عائد کیے جا رہے ہیں کہ دوحہ میں جاری بین الافغان مذاکرات کے باوجود طالبان سیکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
افغانستان کے سابق سفارت کار عمر صمد نے بدھ کو اپنے ایک ٹوئٹ میں طالبان کے اس حکم نامے کی خبر کو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ طالبان ہوشیاری کے ساتھ ایسے موقع پر نئے اقدامات اٹھا رہے ہیں جب امریکی حکومت امن معاہدے پر نظر ثانی کر رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تمام فریقین کے لیے ضروری ہے کہ وہ ذمہ داری کے ساتھ فیصلے اور اقدامات کریں کیوں کہ بہت سی چیزیں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔
طالبان پر گہری نظر رکھنے والے اقوامِ متحدہ کے ایک پینل نے رواں ماہ شائع ہونے والی اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ باغیوں نے اپنے وعدے کے خلاف القاعدہ کے ساتھ رابطوں کو برقرار رکھا۔
اقوامِ متحدہ کی 'اینالیٹیکل سپورٹ اینڈ سینکشن مانیٹرنگ ٹیم' کی جانب سے مرتب کردہ اس رپورٹ میں مختلف ملکوں کی انٹیلی جنس سروسز کی معلومات کو بنیاد بنایا گیا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ تنظیم کے رکن ممالک نے طالبان اور القاعدہ کے درمیان تعلقات میں نمایاں تبدیلیوں کے انتہائی کم ثبوت سامنے آنے کی اطلاع دی ہے۔
رپورٹ کے مطابق القاعدہ کے اس وقت لگ بھگ 200 سے 500 جنگجو افغانستان کے کم از کم 11 صوبوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ تاہم طالبان نے اقوامِ متحدہ کی ان معروضات کو مسترد کر دیا ہے۔
طالبان نے افغانستان کے اُن علاقوں میں القاعدہ کے جنگجوؤں کی موجودگی کے الزامات مسترد کر دیے ہیں جو اُن کے کنٹرول میں ہیں۔
اٖفغان اُمور کے تجزیہ کار احمد رشید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے طالبان کے تازہ احکامات کو مثبت قرار دیا ہے۔
اُن کے بقول اس سے اس بات کا اشارہ مل رہا ہے کہ طالبان، امریکہ کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ دوحہ معاہدے کی تمام شرائط کو پورا کریں گے۔
احمد رشید کہتے ہیں کہ اگرچہ طالبان کی طرف سے یہ ییان دیر سے آیا ہے لیکن ان کے بقول امریکہ اس بات پرنظر رکھے گا کہ آیا طالبان نے القاعدہ کے ساتھ اپنے روابط مکمل طور پر ختم کر لیے ہیں یا نہیں۔
احمد رشید کہتے ہیں کہ طالبان کی کوشش ہے کہ امریکہ کو باور کرایا جائے کہ وہ القاعدہ کے شدت پسندوں کو اپنے سے دور رکھیں گے۔ لیکن ان کے بقول اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا امریکہ طالبان کے وعدوں سے مطمئن ہوتا ہے یا نہیں۔
افغان صدر کے نمائندہ خصوصی داؤدزئی کی وزیرِ خارجہ قریشی سے ملاقات
دوسری جانب افغان صدر کے نمائندۂ خصوصی برائے پاکستان محمد عمر داؤدزئی نے جمعرات کو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمد قریشی سے ملاقات کی اور افغان امن عمل، بین الافغان مذاکرات، خطے کی صورتِ حال اور باہمی دلچسپی کے اُمور پر تبادلہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ داؤدزئی ایک وفد کے ہمراہ پاکستان کے تین روزہ دورے پر بدھ کو اسلام آباد پہنچے۔ پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے صدر غنی کے خصوصی نمائندے سے ملاقات کے دوران کہا کہ پاکستان، جامع سیاسی مذاکرات کے ذریعے افغان تنازع کے سیاسی حل کا خواہاں ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں تشدد میں اضافہ پاکستان کے لیے باعثِ تشویش ہے۔
وزیر خارجہ قریشی نے تمام افغان فریقوں پرزور دیا کہ کہ وہ تشدد میں کمی کرتے ہوئے مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔