"میں نے بہت شوق سے اینکرنگ کا شعبہ اپنے لیے منتخب کیا تھا۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے جیسے میں اسکرین سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آف ایئر ہو رہی ہوں اور یہ میری زندگی کا سب سے تکلیف دہ پہلو ہو گا۔"
یہ کہنا ہے خاطرہ احمدی کا جو افغانستان کے سب سے بڑے نشریاتی ادارے 'طلوع نیوز' سے وابستہ ہیں۔
یاد رہے کہ طالبان کی جانب سے تمام ٹیلی ویژن چینلز کی خواتین اینکرز کو نشریات کے دوران چہرہ ڈھانپنے کا حکم جاری کر دیا گیا ہے۔
اس اعلان کے بعد افغانستان میں کام کرنے والی خواتین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے خاطرہ احمدی کا کہنا تھا کہ وہ پردے کے خلاف ہرگز نہیں ہیں۔ تاہم بطور نیوز اینکر وہ روزانہ تین سے چار گھنٹے براہ راست اسٹوڈیو میں پروگرام کرتی ہیں۔ چہرے کو مسلسل طویل دورانیے تک ڈھانپ کر ٹاک شوز کی میزبانی کرنا بہت مشکل ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان میں اسلامی شعائر کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ وہ افغان روایات اور ثقافت سے بخوبی واقف ہیں اور اسی کے دائرہ کار میں رہ کر زندگی گزار رہی ہیں۔
ان کے مطابق افغانستان کا واحد مسئلہ صرف خواتین سے نہیں جڑا ہوا ہے بلکہ یہاں لوگوں کی اقتصادی، صحت اور تعلیم کے مسائل پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق افغانستان کی نصف آبادی کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خشک سالی اور بیروزگاری میں تیزی سے اضافے کے باعث لوگ تیزی سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔
'طلوع نیوز' کے نیوز منیجر زیرک فہیم کا کہنا ہے کہ طالبان کی وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی جانب سے موصول ہونے والی ہدایات کے بعد چینل انتظامیہ ایک میٹنگ کے دوران اس بات پر متفق ہوئی ہے کہ چینل کسی بھی خاتون نیوز اینکر کو چہرہ چھپانے پر مجبور نہیں کرے گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے زیرک فہیم نے واضح کیا کہ ادارہ اس بات پر بھی آمادہ ہے کہ اگر کوئی خاتون نیوز اینکر پردہ کرنے پر تیار نہیں تو انہیں ملازمتوں سے نکالنے کے بجائے دوسرے شعبوں میں ٹرانسفر کر دیا جائے گا۔
اطلاعات کے مطابق افغانستان میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے عہدے دار گشت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جہاں وہ عام افراد، دکان داروں اور بس ڈرائیورز پر زور دیتے ہیں کہ خواتین سے متعلق احکامات پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔
یاد رہے کہ رواں ماہ طالبان نے اپنے ایک حکم نامے کے ذریعے افغانستان میں خواتین کے لیے حجاب کو لازمی قرار دیا تھا۔
طالبان نے اس پابندی سے انحراف کرنے والی خواتین کے سرپرستوں کے لیے سزاؤں کا تعین بھی کیا گیا تھا۔
خواتین اینکرز سے متعلق نئے حکم نامے کے باوجود طلوع نیوز کی انتظامیہ نے جمعہ تک اپنے اسٹوڈیوز میں خاتون نیوز اینکرز کے لیے حجاب کو لازمی نہیں قرار دیا تھا۔ خواتین نیوز اینکرز بغیر حجاب یا ماسک کے خبریں پڑھ رہی تھیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
طالبان کی وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ترجمان محمد عاکف مہاجر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تصدیق کی ہے کہ دو دن قبل انہوں نے افغانستان کے نشریاتی اداروں کے ساتھ کچھ میٹنگز کیں۔
اُن کے بقول ان کے ساتھ دو ہفتے قبل طالبان کی جانب سے حجاب کے متعلق جاری کردہ احکامات پر بات چیت ہوئی۔
محمد عاکف کے مطابق اس حکم نامے کے مندرجات پورے افغانستان کے لیے تھے۔ اس حکم نامے کی پیروی باقی ماندہ افغانستان میں تو ہو رہی تھی لیکن ٹیلی ویژن اس پر عمل نہیں کر رہے تھے۔
اُن کے بقول اس حوالے سے ان کی وزارت نے تمام ٹی وی چینلز کو اعتماد میں لیا اور انہوں نے اس کی یقین دہانئ کرائی ہے۔