امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری میں ہونے والے امن معاہدے کے تحت بین الافغان امن مذاکرات ہونے تھے، جو مسلسل التوا کا شکار ہیں۔ افغانستان کی دو عشروں پر محیط جنگ کے خاتمے کا سارا انحصار ان مذاکرات پر مرکوز ہے۔
افغانستان کے طالبان کا کہنا ہے کہ بین الافغان امن مذاکرات کے انعقاد سے قبل باغی گروپ سے حملوں کو روکنے کی بات غیر منطقی ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک میڈیا ریلیز میں لکھا کہ یہ انتہائی غیر منطقی تقاضا ہے کہ پہلے لڑائیاں ختم ہوں اور پھر امن مذاکرات شروع کیے جائیں۔ جنگ اس لیے جاری ہے کہ ہمیں اب بھی متبادل راستے کی تلاش ہے۔
انہوں نے اتوار کو جاری کردہ اپنے بیان میں کہا کہ بین الافغان امن مذاکرات جنگ کے خاتمے کی شرط اول ہیں۔
امن مذاکرات افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے معاملے پر آ کر پھنس گئے ہیں۔ مجاہد نے زور دے کر کہا کہ فوری طور پر قیدیوں کے تبادلے کو مکمل کر کے افغان فریقوں کے درمیان بات چیت کا آغاز کیا جانا بے حد ضروری ہے۔ مسئلے کو حل کرنے کا یہ حقیقی اور منطقی راستہ ہے۔
افغانستان کے تمام فریقوں کے درمیان مارچ میں مذاکرات ہونے تھے۔ مگر قیدیوں کے تبادلے میں اختلاف کی وجہ سے یہ اب تک التوا کا شکار ہیں۔
افغان حکومت کہتی ہے کہ اس نے اب تک 4 ہزار سے زیادہ طالبان قیدیوں کو رہا کر دیا ہے۔ جب کہ وعدے مطابق اسے 5 ہزار قیدی رہا کرنے تھے۔ دوسری طرف طالبان کا کہنا ہے انہوں نے 770 افغان حکومت کے قیدیوں کو چھوڑ دیا ہے، جب کہ انہوں ایک ہزار قیدیوں کی رہائی کا وعدہ کیا تھا۔
حالیہ ہفتوں میں طالبان کے حملوں میں افغان سیکیورٹی فورسز کے علاوہ لاتعداد شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ انہی حملوں کو جواز بنا کر صدر غنی نے بقیہ طالبان قیدیوں کی رہائی کو مشروط بنا دیا ہے۔ افغان حکام کا کہنا ہے طالبان قیدیوں پر بے گناہ شہریوں اور سیکیورٹی فورسز کے اہل کاروں کے قتل کا الزام ہے۔
افغان صدارتی ترجمان صدیق صدیقی نے اتوار کو ایک بار پھر طالبان سے کہا کہ وہ تشدد کو ترک کر کے مذاکرات کی میز پر آئیں۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ پیغام میں لکھا کہ افغانستان کے شہروں میں پرتشدد واقعات میں اضافے، سیکیورٹی فورسز پر بموں کے بڑھتے ہوئے حملوں نے افغانستان کے عوام اور بین الاقوامی برادری کی امیدوں اور توقعات پر پانی پھیر دیا ہے۔ مذاکرات کے ذریعے قیام امن کی کوششں ماند پڑ رہی ہے۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے کے تحت امریکی زیر قیادت اتحادی افواج جولائی 2021 تک افغانستان سے نکل جائیں گی اور اس کے جواب میں طالبان کو یہ ضمانت دینا ہو گی کہ ملک سے تشدد کا خاتمہ کیا جائے گا، مکمل جنگ بندی پر عمل کیا جائے گا اور افغانستان کے تمام گروپوں ساتھ مل کر اقتدار میں شراکت داری قائم کی جائے گی۔