ایوانِ نمائندگان میں افغانستان سے اس سال کے آخر تک تمام امریکی فوجیں نکالنے کی تجویز کے خلاف 321 ووٹ اور اس کے حق میں 93 ووٹ آئے۔ اس سے قبل، واشنگٹن پوسٹ اور ABC نیوز کے سروے میں شامل 64 فیصد لوگوں نے اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ اس جنگ کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے اور اسے جاری نہیں رکھنا چاہیئے۔ یہ ایک اہم تبدیلی ہے کیوں کہ 2009ء کے آخر میں اسی سروے میں لوگوں کی اکثریت نے جنگ کی حمایت کی تھی۔
عوام میں اس جنگ کی حمایت میں مسلسل کمی گذشتہ ہفتے امریکی کانگریس کی سماعتوں میں زیرِ بحث آئی تھی۔ ان سماعتوں میں افغانستان میں بین الاقوامی فورسز کے کمانڈر، امریکی جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے بتایا کہ نیٹو کی فورسزنے طالبان کے خلاف کتنی کامیابی حاصل کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’اگرچہ گذشتہ سال کے دوران سکیورٹی کے شعبے میں قابلِ ذکر پیش رفت ہوئی ہے، لیکن ابھی اس میں پختگی نہیں آئی ہے اور حالات پھر پرانی ڈگر پر واپس جا سکتے ہیں‘‘۔
ریاست نارتھ کیرولائنا کے ریپبلیکن کانگریس مین، والٹر جونز طویل عرصے سے افغانستان کی جنگ کے خلاف ہیں۔ جونز کو تشویش یہ ہے کہ افغان حکومت 2014ء کے بعد بھی امریکی فوجوں سے افغانستان میں ٹھہرنے کے لیے کہے گی۔ یہ وہ تاریخ ہے جب امریکہ اور نیٹو کی فوجیں افغانستان میں جنگی کارروائیاں ختم کر دیں گی۔ جونز کہتے ہیں کہ ’’15 سال، 16 سال، 17 سال، آخر ہم کب تک یہ بوجھ برداشت کر سکتےہیں؟ ہم کتنا پیسہ خرچ کر سکتےہیں، کتنی جانوں کی قربانی دے سکتے ہیں؟‘‘
جنرل پیٹریاس نے جونز سے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ جنگ دس برس سے جاری ہے، لیکن انھوں ںے کہا کہ امریکی فوجوں کو اپنا کام ختم کرنا چاہیئے جو یہ ہے کہ القاعدہ کو ایک بار پھر افغانستان کو امریکہ پر حملے کرنے کی صلاحیت سے محروم کردیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ امریکیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چلا ہے۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ ہم افغانستان سے صحیح حالات میں اور بتدریج نکلیں۔
سیاسیات کے ماہر جیک پٹنی کہتے ہیں کہ کچھ عرصے سے امریکی عوام میں جنگ کی حمایت کم ہوتی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق ’’رائے عامہ کا کلاسک انداز یہی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اور جیسے جیسے ہلاک و زخمی ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے، جنگ کی حمایت کم ہو جاتی ہے۔ لوگ جنگ میں امریکیوں کے ہلاک ہونے کی تفصیلات سنتے رہتے ہیں اور انھیں کسی نمایاں پیش رفت کے آثار نظر نہیں آتے۔‘‘
امریکی کانگریس میں جنگ کے حامی ارکان کہتے ہیں کہ رائے عامہ کے حالیہ جائزے پر انہیں تشویش نہیں ہے۔ ریاست کنیٹی کٹ کے سینیٹر جوزف لیبر مین کہتے ہیں کہ ’’جنگ اور امن کے بارے میں فیصلے رائے عامہ کی بنیاد پر نہیں کیے جا سکتے۔ آج کل ہمیں افغانسان میں کامیبابی ہو رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس جنگ کے بارے میں امریکیوں کی رائے خراب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کے لوگ معیشت، روزگار اور بجٹ میں خسارے سے پریشان ہیں۔ ان حالات میں، ہمیں امریکی عوام کو یاد دلانا چاہیئے کہ ہم افغانستان میں کیوں ہیں، وہاں ہماری موجودگی کیوں ضروری ہے اور یہ کہ ہمیں وہاں کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔ ‘‘
اس سال افغانستان کا تنازعہ ایک اہم مرحلے میں داخل ہو جائے گا کیوں کہ امریکہ ، زمینی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے، اپنی کچھ فوجوں کو وہاں سے نکالنے کی تیاری شروع کرے گا۔ یونیورسٹی آف ورجینیا کے لیری سباٹو کا کہنا ہے کہ ’’رائے عامہ کے جائزے تو بہت سے ہوئے ہیں لیکن اگر آپ لمبے عرصے کے رجحان پر نظر ڈالیں، تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ امریکی عوام افغانستان کی جنگ سے کسی حد تک بیزار ہو چلے ہیں کیوں کہ جنگ بہت طول پکڑ گئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ پبلک صدر اوباما کو یہ اشارہ دے رہی ہےکہ جب اگست کی ڈیڈ لائن آئے تو وہ کم نہیں بلکہ زیادہ فوجیں وہاں سے نکال لیں۔‘‘
رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریپبلیکنز کے مقابلے میں ڈیموکریٹس میں جنگ کی حمایت کم ہے ۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ رجحان تبدیل ہو رہا ہو۔ ریاست مسی سپی کے گورنر، ہیلے باربور جو 2012ء میں صدارتی انتخاب لڑنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں، اب کھل کر اس جنگ کی مخالفت کر رہےہیں۔ ماہرین کہتےہیں کہ اگلے سال ریپبلیکن پارٹی کی طرف سے صدارتی نامزدگی کے مقابلے میں افغانستان ایک اہم موضوع بن سکتا ہے۔